کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 26
حدیث وسنت حافظ محمد زبیر
کیا صحیحین کی صحت پر ’اجماع‘ ہے؟
یہ زمانہ فتنوں کا زمانہ ہے، آئے دن کسی نہ کسی نئے فتنے کا ظہور ہوتارہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ اس دنیا کو ’دارالابتلا‘ بنایا ہے، اس لیے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ دنیا سے شر بالکل ختم ہو جائے۔ اگر ایک برائی اپنے انجام کوپہنچے گی تو اس کی جگہ دوسری برائی لے لے گی، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ کسی بھی باطل یاشر کو دوام نہیں بخشتے۔ دوام،ہمیشگی، تسلسل اور بالآخر غلبہ، چاہے وہ دلیل کی بنیاد پر ہو یا قوت کی بنیاد پر، صرف حق ہی کے لیے ہے۔
اُمت ِمسلمہ کی تاریخ میں اہل سنت کے بالمقابل ہر دور میں فرقِ باطلہ اپنے گمراہ کن نظریات پھیلاتے رہے، لیکن ہر گروہ یا تو اپنی طبعی عمر گزارنے کے بعد مر گیا اور اس کا نام صرف کتابوں میں باقی رہ گیا جیسا کہ ’خوارج و معتزلہ‘ وغیرہ ہیں یا وہ دلیل و برہان کے میدان میں اہل سنت سے مغلوب ہو گیااور اس کی نشوونما رُک گئی جیسا کہ ’یہود و نصاریٰ‘ ہیں یا اُمت ِمسلمہ نے اسے اپنے وجود سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا جیسا کہ ’قادیانی‘ ہیں ۔
عصر حاضر کی آزمائشوں میں سے ایک بڑی آزمائش وہ تجدد پسند دانشور ہیں جو ائمہ سلف کے بالمقابل علومِ اسلامیہ میں ان جیسا ’رسوخ فی العلم‘ تونہیں رکھتے لیکن اس کے باوجودسلف صالحین کی تحقیق پر اپنی جہالت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ان ’اہل علم‘ میں بعض وہ بھی ہیں جو براہِ راست تو احادیث کا انکار نہیں کرتے، لیکن جو احادیث بھی ان کو اپنی عقل و فکر سے متعارض نظر آئیں ، ان کی تَضعِیف کے لیے نت نئے اُصول وضع کر لیتے ہیں جیسا کہ بعض معاصر علما نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی بعض ایسی احادیث کو ضعیف یا موضوع قرار دے دیا، جن کے صحیح ہونے پر ائمہ سلف کا اتفاق ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ان ناقدین میں زیادہ جری تو سرسید احمد خان، غلام احمد پرویز، عبد اللہ چکڑالوی ،مولوی چراغ علی،علامہ تمنا عمادی،علامہ عنایت