کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 25
کرنے والے اور ناشر کے لئے شرائط‘ کے زیر عنوان بحث کریں گے۔ مصحف کی اَجزا ( پاروں ) میں تقسیم مصاحف ِعثمانیہ جس طرح نقطوں اور اِعراب سے خالی تھے، اسی طرح ان میں اَجزا اور پاروں کی تقسیم بھی نہیں تھی۔ پھر بعض لوگوں نے آسانی کے خیال سے مصحف ِعثمانیہ کو ۳۰ حصوں میں تقسیم کردیا اور ہر حصے کو جز (پارے) کا نام دیا۔ پھر جز کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر ان کو مزیدچار حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر حصہ کو رُبع کا نام دیا گیا۔ قرآنِ کریم کی یہی تقسیم شروع سے مشہور چلی آرہی ہے ۔ آیات: دور ِاوّل کے بعض کاتبینِ مصاحف آیات کے مابین فاصلوں میں سے ہر فاصلہ کے بعد تین نقطے ڈالتے تھے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہاں یہ آیت ختم ہوچکی ہے۔ نیز وہ سورہ کی ہر پانچ آیات کے اختتام پر (حاشیہ میں ) لفظ خمس اور ہر دس آیات کے اختتام پر (حاشیہ میں ) لفظ عشر لکھتے تھے۔ چنانچہ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بدأوا فنقطوا ثم خمسوا ثم عشروا ’’پہلے پہل اُنہوں نے نقطے لگائے۔ پھر خمس کا نشان اور پھر عشر کا نشان لگایا۔‘‘ اسی طرح بعض کاتبین خمس کی بجائے خ اور عشر کی بجائے ع کا سرا استعمال کرتے تھے۔ اوران میں سے بعض سورت کا نام بھی لکھتے تھے اور ساتھ یہ بھی لکھتے کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی۔ نیزسورہ کے آخر میں آیات کی تعداد بھی تحریر کرتے تھے۔ بعد میں تلاوت اور تجوید کی آسانی کے لئے کچھ مزید رموزو اوقاف بھی وضع کئے گئے جن کی تفصیل مطبوعہ قرآنی نسخوں کے آخر میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ ان تمام اُمورکے متعلق علما کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے کراہت کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے، لیکن دیگر کے نزدیک اس میں کراہت کا کوئی پہلو نہیں ہے اور یہی موقف زیادہ راجح ہے، کیونکہ اس طرح کے رموزو اوقاف قارئ قرآن کے لئے سہولت اور قراء ت میں مزید اشتیاق کا باعث بنتے ہیں ۔ واللہ اعلم