کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 24
فتحہ (زبر) کے لئے حرف کے اوپر ترچھی لکیراور کسرہ (زیر)کے لئے حرف کے نیچے ایک ترچھی لکیر اورشد[1] یا تشدید کے لئے حرف کے اوپر س کا سرا اور جزم کے لئے ج کا سرا اور مد ّکے لئے حرف کے اوپر آ کی علامت کو اختیار کیا۔اسی طرح اس نے اصطلاحاتِ وقف ’رَوم‘ و ’اشمام‘ کی دیگر علامات وضع کیں ۔ پھر خوبصورتی اور اختصار کی خاطر ان علامات میں مزید اصلاحات و ترمیمات کی گئیں ۔ اور ارتقا کے ان مختلف مراحل کے بعد علاماتِ ضبط کا یہ طریقہ رائج ہوا جو اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے۔
پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مصحف پر نقط الإعراب (نقطو ں کی شکل میں حرکات) لگانے کا موجد ِاوّل ابواسود دؤلی ہے۔ ان کے بعد نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر نے نقط الأعجام یعنی نقطے ایجاد کئے۔ اسکے بعد حرکات وجود میں آئیں جنہیں خلیل بن احمد فراہیدی نے وضع کیا۔
٭ لیکن ایک دوسری روایت اس کے برعکس ہے جسے امام دانی رحمہ اللہ نے یحییٰ بن کثیر کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ قرآنی مصاحف نقطوں اور اِعراب سے خالی تھے پھر سب سے پہلے علما نے حروف تہجی: ب، ت اور ث کے لئے نقطے ایجاد کئے اور کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ، یہ نقطے ان حروف کے لئے نور ہیں جن کی روشنی میں قرآن کریم میں لحن سے بچا جاسکتا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نقط الإعراب سے پہلے نقط الاعجام وجود پذیر ہوچکے تھے۔[2]
اب نقطے اور حرکات لگانے کا حکم کیا ہے ؟اس پر ہم آئندہ صفحات میں ’ مصحف کی کتابت
[1] ایک قول یہ بھی ہے کہ شد اور اس کے بعد کی علامات اگرچہ عباسی دور حکومت میں ہی وضع ہوئیں،لیکن اُنہیں خلیل بن احمد فراہیدی کے بعد کسی اور نے وضع کیا تھا ـ۔
[2] البتہ امام جعبري نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ نقط بالإعراب اور نقط بالأعجام دونوں کو ابو اسود دؤلی نے ایجاد کیا تھا۔اُنہوں نے پہلے نقط الإعراب ایجاد کئے اور اس کے بعد نقط الأعجام کی طرح ڈالی پھر دیگر علما نے ان سے یہ علم حاصل کیا۔لہٰذا اس فن میں برتری اور اوّلیت ابو اسود کو ہی حاصل ہے۔
ہماری رائے میں امام جعبري کے اس بیان سے وہ ابہام کسی حد تک رفع ہو جاتا ہے جو امام دانی ؒکی روایت سے پیدا ہوا تھا۔ ان روایات کے تناظر میں دیکھتے ہوئے بات یہ سامنے آتی ہے کہ ابو اسود دؤلی نے نقط الإعراب کے ساتھ نقط الأعجام کی طرح تو ڈال دی تھی ، لیکن اسے باقاعد ہ متعارف بعد میں نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر نے کروایا۔ (مترجم)