کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 21
و اثرات سے نمٹنے کے لئے ایسے وسائل فراہم کئے جو کتاب اللہ کو تصحیف وتحریف اور لحن سے محفوظ رکھنے میں کارآمد ثابت ہو سکیں ۔ نیز عجمی مسلمانوں کے لئے قرآن کی تلاوت میں بھی آسانی پیدا ہو جائے۔ ذیل میں ہم ان وسائل کی تفصیل بیان کریں گے: نقطے اس کے دو مفہوم ہیں : 1. اس سے مرادوہ علامات ہیں جو کسی حرف پر حرکت و سکون اور شدومد وغیرہ کی شکل میں لگائی جاتی ہیں ۔ چنانچہ بعض لوگوں نے ان نقطوں کو نقط الإعراب کا نام دیا ہے۔ 2. اس سے مراد وہ نشانات ہیں جو ایک جیسے رسم والے حروف،مثلاً ب، ت، ث وغیرہ پر لگائے جاتے ہیں ، تاکہ معجم اور مہمل حروف کے درمیان امتیاز ہوسکے۔ چنانچہ ب کے ایک نقطے نے اسے اس کے ہم رسم حروف ت اور ثسے ممیز کردیاہے اور ج کے نقطے نے اسے اس سے ہم رسم حروف حاور خ سے ممیز کردیا ہے۔ اسی طرح د اور ذ اور ر، ز وغیرہ کا معاملہ ہے۔ بعض لوگوں نے ان نقطوں کو نقاط الأعجام کا نام دیا ہے۔ شکل (حرکات) اس سے مراد وہ علامات ہیں جو حرکت، سکون اور شدومد وغیرہ کی صورت میں حروف پر لگائی جاتی ہیں ۔ لفظ ِ ضبط بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے نقطوں کا پہلا مفہوم ’شکل ‘ (حرکات ) اور ’ضبط ‘کے ہم معنی ہے۔ ٭ علما کا اس بارے میں اختلا ف ہے کہ نقطوں اور حرکات کا یہ نظام کس نے ایجا دکیا تھا؟ کیا نقطوں اور حرکات کا موجد ایک ہی تھا یادو الگ الگ اَفراد نے اُنہیں ایجاد کیا تھا۔ اور ان میں سے پہلے نقطے ایجاد ہوئے تھے یا حرکات؟ ٭ اس سلسلے میں محققین علما کا رجحان اس طرف ہے کہ نقط الإعراب یعنی حرکات کا موجد ابواسود دؤلی ہے۔بیان کیا جاتاہے کہ امیرالمومنین معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا، کو خط لکھا کہ اپنے بیٹے عبیداللہ کو میرے پاس بھیج دو۔ جب عبیداللہ وہاں پہنچا اورگفتگو ہوئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ غلط عربی بول رہا ہے۔