کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 19
پاکستان میں متعین ڈنمارکی سفیر متوقع رد ِعمل کے خوف سے اپنے وطن پہنچے ہوئے ہیں ۔ [1] 5. قلم وقرطاس کے ذریعے سرور کونین کی سیرت اور اپنے احتجاج کو دور دو رپہنچایا جائے مثلاً بینر، سٹیکرز، پوسٹر، مضامین، خطوط، ای میل، میڈیا کو فون وغیرہ، غرض ہر ذریعہ کو استعمال میں لایا جائے۔ اس ابلاغی مہم کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سعودی عرب و سوڈان کی طرح دیگر مسلم حکومتیں بھی اپنے احتجاج کو منظم کرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔ 6. آپس میں محبت ومودّت کا خوگربننااور اُخوت اسلامی کو پختہ کرنا چاہئے۔ اس کے بغیر اسلام کا رعب غیرمسلموں پر طاری نہیں ہوسکتا۔ جس طرح غیر مسلم اپنے مذموم مقاصد کے لئے یکسو اور متحد ہیں ، پورا یورپ اور مغربی میڈیا یک جہتی سے اس ظلم کی اصلاح کی بجائے اس کی حمایت پر کمربستہ ہے۔ اس مسئلہ کا مداوا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مسلمانوں میں باہمی مؤاخات کو پیغمبر اسلام سے محبت کے مرکزی نکتہ کے نام پر پروان نہ چڑھایا جائے۔ محمد رسول اللہ سے محبت ہر مسلمان کے عقیدے کا اوّلین نکتہ ہے، جس میں سپرداری کے ساتھ اطاعت ووارفتگی کے جذبات بھی موجزن ہیں ۔ باہمی اتحاد کے لئے اس نسخۂ اکسیر کو کارگر طریقے سے استعما ل میں لایا جائے۔ بعض مسلمان عملی اعتبار سے اس میں شرکت کرسکتے ہیں تو بعض شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے مال کا نذرانہ پیش کرکے حصہ ڈال سکتے ہیں ۔ غرض عمل کرنے اور ذمہ داری کو محسوس کرنے والوں کے لئے اَن گنت راستے ہیں ۔ مذکورہ بالا اُمور میں سے کسی ایک طریقہ پر بھی کامل روح کے ساتھ عمل پیرا ہونے کا ہم عزمِ صمیم کرلیں تویہ ہماری سعادت اور مسلم اُمہ کا بھرم قائم کرنے کا باعث ہوگا، وگرنہ توہینِ رسالت کے ان واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نعوذ باللہ جاری رہے گا، اورہم اس پر کف ِافسوس ملنے اور اپنی بے چارگی کا نوحہ کہنے کے سوا کچھ نہ کرسکیں گے۔یہ عمل کا وقت ہے، زبانی جمع خرچ کا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ یہ چند کلمات جو سرورِ کونین اور نبی الثقلین علیہ افضل التحیۃ والسلام کی شان میں درج کئے گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے اور مسلمانوں کو قوتِ عمل سے نوازے۔ آمین! (حافظ حسن مدنی)
[1] پاکستان کو دنیا میں اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے، اور پاکستانی حب ِرسولؐ میں دیگر مسلمانوں سے کافی ممتاز ہیں، اس کے باوجود ہمارے وطن سے شدید احتجاج کا نہ ہونا اورسرد مہری کا رویہ اپنانا ہمارے ماضی کے کردار کے عین برعکس اور قومی بے غیرتی کا غماز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن میں چین وسکون غارت ہوچکا ہے۔ حکمران کسی قوم کے مرکزی رجحانات کے عکاس ہوتے ہیں جس کے نتائج ہم بری طرح بھگت رہے ہیں۔ جب تک قوم کے افراد خود اپنے آپ کو نہ بدلیں گے، اپنی زندگی میں اسلام کونافذ نہیں کریں گے، محض غلبہ اسلام کی خواہش ہمارے حکمرانوں کوتبدیل نہ کرے گی۔ اللہ ہمارے جذبہ کے مصداق ہمیں قوتِ عمل سے نوازے۔