کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 17
دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ کرام کو متوجہ کیا کرتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی پکار کے نتیجے میں ان گستاخانِ رسالت کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ آج شمع رسالت کے پروانوں کو یہ پکار اپنی سماعت پر محسوس کرنا چاہئے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے ہر ممکنہ اقدام بروئے کار لانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت ومنزلت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے جس طرح شریعت ِاسلامیہ کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ نے اُٹھا لی۔ اس عظیم ذمہ داری کی تکمیل کے لئے اس عالم الاسباب میں اللہ نے حفاظِ قرآن اور محدثینِ عظام کی شکل میں ایسے نفوسِ قدسیہ پیدا کئے جنہوں نے اللہ کے دین کی تاقیامت حفاظت کے ٹھوس اقدامات کئے۔ ایسے ہی نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کے لئے بھی اللہ کی طرف سے فرشتے نازل ہونے کی بجائے ایسے مبارک نفوس ہی آگے آئیں گے جن سے اللہ تعالیٰ قول وفعل کے میدان میں عظیم الشان خدمت لے گا۔
٭ یہاں ایسے مسلمانوں کو بطورِ خاص متوجہ ہونا چاہئے جو علماے دین ہونے کے ناطے منصب ِرسالت کی وراثت کے داعی، امین اور محافظ ہیں ۔ مسلمانوں کے ایسے اہل علم جن کا یہ احساس ہے کہ وہ جوہر نبوت یعنی فرامینِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ ورکھوالے ہیں ۔ وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے دین میں فقاہت کی بصیرت سے نوازکر اُمت کے منتخب شدہ افراد ہونے کی سند ِتصدیق عطا کی ہے، ان خاصۂ خاصانِ رسل پر بطورِ خاص اُمت ِمسلمہ کے نمائندے اور وراثت ِ رسول کے امین ہونے کے ناطے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ایسے المناک مراحل پر ملت ِاسلامیہ میں احساس وشعور بیدار کرنے میں کوئی کمی نہ دکھا رکھیں تاکہ اُمت من حیث المجموع اپنے فرائض کو بجا لانے پر کمربستہ ہوجائے۔
ہر شخص تھوڑی سی محنت اور غور وفکر کے بعد اپنے دائرئہ عمل میں موجود امکانات کوبخوبی پہچان سکتا ہے۔ اگر وہ نبی ٔرحمت کی ذات سے ظلم کے خاتمے کے لئے آمادہ ہو تو اس کے سامنے فکر وعمل کے بے شمار دریچے وا ہوسکتے ہیں ۔ ان میں سے آسانی کے لئے ہم محض چند ایک کی نشاندہی پر اکتفا کرتے ہیں :
1. اپنے عمل سے فرامینِ نبویہ کے تقدس پر اس طرح مہر تصدیق ثبت کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس