کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 13
((فَأُثني علی ربي بثناء وتحمید یُعَلِّمَنِیہ۔قال: ثم أشفع فیحد لي حدا فأخرج فأدخلہم الجنۃ)) قال قتادۃ: وقدسمعتہ یقول ((فأخرج فأخرجہم من النار وأدخلہم الجنۃ حتی ما یبقی في النار إلا لِمَن حَبِسہ القرآن أي وجب علیہ الخلود)) قال: ثم تلا ہذہ الآیۃ ((﴿عَسی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾ )) (صحیح بخاری:۷۴۴۰)
’’(تیسری بار) میں پھر اپنے ربّ کی تسبیح وتحمید بجا لاؤں گا جو وہ مجھے (بطورِ خاص) سکھائے گا، پھر میں شفاعت کروں گا، میرے لئے ایک حد مقرر کردی جائے گی اور میں لوگوں کو (تیسری بار) جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے سنا: میں جہنم سے نکال کر تمام لوگوں کو جنت میں داخل کردوں گا، ماسوائے ان لوگوں کے جنہیں قرآن (میں مذکورہ وعدئہ الٰہی )نے روک لیا ہوگا یعنی ان پر دائمی جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔ راویٔ حدیث کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ِکریمہ کی تلاوت کی: تیرا ربّ عنقریب تجھے مقام محمود پر مبعوث کرے گا۔‘‘ (الاسراء: ۷۹)
اپنی اُمت کی آسانی کے لئے واقعہ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازوں کو بہ اصرار پانچ کروانا(بخاری: ۳۴۹)، ہر نماز سے قبل مسواک کا حکم نہ دینا(بخاری: ۸۸۷)، نمازِ عشاء کو جلد پڑھ لینا(مسلم: ۶۳۹)، تیز آندھی اور غضبناک بادلوں کو دیکھ کر بے چین ہوجانا(مسلم: ۸۹۹)، اپنی اُمت کو عذاب ِعامہ اور غرق سے بچنے کی دعا کرنا اور اس کا قبول ہونا(مسلم: ۲۸۹۰)، سبعہ احرف میں قرآن پڑھنے کی اجازت حاصل کرنا(مسلم: ۸۲۱)، الغرض نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت پر رحمت وشفقت کے تذکرے اس قدر طویل ہیں کہ اس سے قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں ۔ آپ کو ربّ ذوالجلال والاکرام نے مقامِ محمود عطا فرمایا اور سورئہ الم نشرح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی عظمت کا وعدہ دیا ہے۔ پھر وہ لوگ کس قدر بدبخت اور بد باطن ہیں جو ربِ ارض وسما کے بالمقابل اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اپنے مکروہ قلم کے ذریعے گھٹانے پر اپنی کوششیں صرف کررہے ہیں ۔جس کی عظمت کا رکھوالا ربّ ِجل جلالہ ہو، اس کی شان میں گستاخی کی جسارت کا ارتکاب کسی انسان کے لئے ذلیل ترین رویہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قرآن کریم میں ایسے رکیک ہتھکنڈوں پر دلاسہ دیا ہے: