کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 12
((یا جبریل اذہب إلی محمد فقل إنا سنُرضیک في أمتک ولا نسوؤک))
’’اے جبریل! محمد کے پاس جا کر اسے کہہ دے کہ ہم تیری امت کے بارے میں تجھے راضی کریں گے، تجھے پریشان نہیں کریں گے۔‘‘ (صحیح مسلم:۲۰۲)
٭ روزِ محشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور اُمت کے لئے شفقت زوروں پر ہوگی، فرماتے ہیں :
((لکل نبي دعوۃ مستجابۃ یدعو بہا وأرید أن أختبئَ دعوتي شفاعۃ لأمتي في الآخرۃ)) (صحیح بخاری:۶۳۰۴)
’’ہر نبی کی ایک دعا ایسی ہے جوشرفِ قبولیت سے محروم نہیں رہتی۔ اور میں نے روز ِ قیامت اپنی اُمت کی شفاعت کے لئے اس دعا کو محفوظ کررکھا ہے۔‘‘
٭ ساقی کوثر اور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت کے لئے رحمت کا نقشہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھینچا گیا ہے کہ میں روزِ محشر چلتا ہوا عرشِ الٰہی کے نیچے پہنچ کر ربّ ِذوالجلال کے حضورسجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پھر میں اللہ کی شان میں ایسی حمد وتوصیف کا باب کھولوں گا، جس کی میرے سے قبل کسی کے ہاں مثال نہ ہوگی۔ تب مجھ سے کہا جائے گا :
((یا محمد ارفع رأسک سَل تُعطہ واشفع تُشَفَّع فأرفع رأسي فأقول: أمتي یا ربِّ، أمتي یا رب فیقال یا محمد! أدخل من أمتک من لا حساب علیہم من الباب الأیمن من أبواب الجنۃ … الخ)) (صحیح بخاری:۴۷۱۲)
’’اے محمد! اپنا سر اُٹھا، جو مانگے گا، تجھے دیا جائے گا اورجو سفارش کرے گا، تیری سفارش قبول کی جائے گی۔ تب میں کہوں گا کہ یاربّ! میری اُمت، یاربّ! میری اُمت۔ تب کہا جائے گا کہ اپنی اُمت میں ایسے لوگوں کوجنت کے داہنے دروازے سے داخل کرلے، جن پر کوئی حساب نہ ہو۔ یہ لوگ جنت کے دروازوں میں دیگر داخل ہونے والوں کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ پھر مزید فرمایا: واللہ!جنت کے دو کواڑوں کے مابین اس قدر وسعت ہے جتنی مکہ اور حمیر یا مکہ اور بصریٰ کے مابین ہے۔‘‘
٭ صحیح بخاری کی ایک اور طویل حدیث ِمبارکہ میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ محمود کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے تین بار جہنم رسید ہونیوالے مسلمانوں کو جنت میں داخل کریں گے۔ حدیث کا آخری حصہ یہ ہے :