کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 11
کریں ۔ ہم اُنہیں پھر اپنے نبی کی شانِ رحمت یاد دلاتے اور ان کے پیغام کی جھلک دکھلاتے ہیں ، رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’میری اور لوگوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک شخص نے آگ جلائی ، جب آگ جلنے کے سبب ارد گردکا ماحول روشن ہوگیا تو پروانے اور کیڑے مکوڑے اس آگ کے پاس آکر اس میں گرنے لگے۔ وہ شخص ان کو آگ سے دور کرتا ہے لیکن وہ پروانے اس پر غالب آجاتے ہیں اور آگ میں گرتے ہی رہتے ہیں ۔ ((فأنا آخذ بحُجَزِکم عن النار وہم یقتحمون فیہا)) لوگو! میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر آگ سے باہر دھکیلتا ہوں لیکن تم اس میں گرنے پر مصر ہو۔‘‘ (صحیح بخاری:۶۴۸۳)
٭ نبی کریم کی وہ رحمت جو آپ کے متبعین اور مؤمنین کو حاصل ہے اور روزِ محشر حاصل ہوگی، اس کا ایمان افروز تذکرہ بھی تازہ کرلیجئے، قرآنِ کریم میں اس بات کی شہادت ہے:
﴿لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التوبہ: ۱۲۸)
’’تمہارے پاس تم میں سے ہی ایسا رسول آیا ہے جسے تم پر مشقت انتہائی گراں گزرتی ہے اور تہارے بارے میں بہت اچھی خواہشات رکھنے والا اور مؤمنوں پر انتہائی مہربان وشفیق ہے۔‘‘
٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت پر کمالِ شفقت کرتے ہوئے مسلم حکمرانوں کیلئے یوں دعا کی:
((اللہم من وَلِيَ من أمر أمتي شیئا فَشَقَّ علیہم فَاشْقُقْ ومن ولي من أمر أمتي شیئا فَرَفِقَ بہم فَارْفُقْ بہٖ)) (صحیح مسلم:۱۸۲۸)
’’ اے اللہ! جو شخص میری اُمت کسی معاملے کا نگہبان بنے اور ان سے سختی کا برتاؤ کرے تو تو بھی اس سے سخت روی سے پیش آئیے اور جو میری امت کا ذمہ دار ہوکر نرمی کا رویہ اختیار کرے ، تو تو بھی اس سے نرم ہوجا۔‘‘
٭ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ربّ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر ، روتے ہوئے اللہم أمتي أمتيکی فریاد کی۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ آپ سے رونے کی وجہ دریافت کریں ۔ جبریل نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی اور اللہ تعالیٰ کو بتلائی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے جبریل کی زبانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وعدہ دیا کہ