کتاب: محدث شمارہ 319 - صفحہ 10
ربّ اگر چاہے تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کرے کہ ان کو گردنیں جھکائے بنا چارہ نہ رہے۔‘‘
ایک اور مقام پر آپ کی اسی فکر مندی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفَسْکَ عَلٰی آثَارِہِمْ إِنْ لَّمْ یُؤمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا﴾
’’شاید کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو شدت ِافسوس کی بنا پر ہلاک نہ کربیٹھیں کہ یہ لوگ قرآنِ کریم پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔‘‘ (الکہف: ۶)
٭ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت ِدعوت کے ساتھ رحمت وشفقت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ اُن کی ہدایت کے لئے آپ کی بے چینی میں کوئی فرق نہ آتا تھا، تب اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں آپ کو سرزنش کی کہ
﴿اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْہِ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِيْ النَّارِ﴾ (الزمر: ۱۹)
’’وہ شخص جس پر عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے، کیا آپ اس کو آگ سے بچانے پر مصر ہیں ۔‘‘
﴿اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُومِنِیْنَ﴾ (یونس: ۹۹)
’’کیا تو لوگوں کو اس قدر مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ اسلام لے کر ہی آئیں ۔‘‘
﴿وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِیْ الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِیْ السَّمَائِ فَتَاْتِیَہُمْ بِآیَۃٍ وَّلَوْ شَائَ اللّہُ لَجَمَعَہُمْ عَلیٰ الْہُدٰی فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ﴾ (الانعام: ۳۵)
’’ اے میرے نبی! اگر تجھ پر کفار کا منہ پھیرنا اس قدر گراں ہے تو پھر زمین میں کوئی سرنگ کھود لے یا آسمان پر سیڑھی لگالے اور ان کو خود کوئی نشانی لا دے۔ اگر اللہ چاہے تو ان کو ہدایت پر جمع کرسکتا ہے ، لیکن تو (شدتِ رحمت) میں جاہلوں کی مانند نہ ہوجا۔‘‘
یہ ہے شانِ رحمت کا نقشہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فکر مندی کا غماز ہے کہ لوگ اسلام کو قبول کرکے اپنے آپ کو عذابِ جہنم سے بچا لیں ۔ ایسے نبی سے دورِ حاضر میں روا رکھا جانے والا رویہ کس قدر ظلم وستم کا عکاس ہے۔ اِس دور کے منکرینِ رسالت کی مثال بھی کفارِ قریش جیسی ہی ہے جنہیں اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت اس دین کے لانے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر طنز واستہزاکے تیر چلانے کو آمادہ کرتی۔ آج بھی یورپی ممالک میں اسلام کی پھیلتی ہوئی دعوت مغربی میڈیا کو مجبور کرتی ہے کہ وہ دلیل و مباحثہ کا راستہ چھوڑ کر طنز وتشنیع اور اِلزام واتہام کا راستہ اختیار