کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 9
مبارک سے بخوبی ہوجاتا ہے جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
((کتاب ﷲ فیہ نبأ ماکان قبلکم وخبرما بعدکم وحکم ما بینکم ہو الفصل لیس بالہزل۔من قال بہ صَدَق ومن عمل بہ أُجرومن حَکَم بہ عدل))
’’یہ اللہ کی کتاب (قرآنِ مجید) ہے جس میں گذشتہ قوموں کے حالات ہیں اور آنے والے واقعات کی خبر ہے۔ یہ کتاب تمہارے مابین پیش آنے والے مسائل کے لئے فیصلہ کن (حَکَم) ہے۔یہ فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، کوئی مذاق نہیں ۔ جس نے اس کی بنا پر کوئی بات کی تو اس نے سچ بولا۔ جس نے اس کی بنا پر عمل کیا تو وہ اجر کا مستحق ہوگیا، اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا تو اُسی نے عدلِ حقیقی کو ملحوظ رکھا۔‘‘ (سنن ترمذی:۲۹۰۶)
٭ اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عدل وانصاف کو کتابِ الٰہی کے ساتھ فیصلہ کرنے سے مشروط قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کی نظر میں کتابِ الٰہی کونظر انداز کرکے عدل کرنا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں یہ بھی قرار دیا ہے کہ
﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ ﷲُ فَاُوْلٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾(المائدۃ: ۴۵)
’’ جو اللہ کی نازل کردہ وحی (قرآن وسنت) سے فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ ظالم ہیں ۔‘‘
ظاہر ہے کہ ’ظلم‘ عدل کے عین متضاد وصف ہے۔ اور کتاب وسنت کے ماسوا سے فیصلہ کرنے کو ’ظلم‘سے تعبیر کیا گیا ہے، گویا اس آیت کا مفہومِ مخالف یہ تقاضا اور تعین کرتا ہے کہ عدل سے مَا أنزل ﷲ کے مطابق فیصلہ کرنا ہی مراد لیا جائے۔چنانچہ ہر وہ فیصلہ جو کتاب اللہ کو نظر انداز کرکے کیا جاتا ہے، انسان چاہے اس کو لاکھ عدل تصور کرے لیکن درحقیقت اللہ کی نظر میں وہ عد ل کا حقیقی تقاضا پورا نہ کرتے ہوئے ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔
کتاب وسنت سے فیصلہ کرنے اوراللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ کن حیثیت دینے پربیسیوں آیات واحادیث پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ چنانچہ قرآن میں ذکر کردہ عدل کو قرآن کے تصورِ عدل سے ہی مشروط سمجھنا ضروری ہے۔
٭ اسلام میں حکومت اور مناصب کا مقصد ِاصلی ’شریعت ِاسلامیہ کا نفاذ‘ ہے، حتیٰ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک بار اپنے دورِ خلافت میں لوگوں کو امارت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ’’امارت کا قیام ہر حال میں ضروری ہے ، چاہے امیر ذاتی طور پر نیک ہو یا گناہ گار۔