کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 8
کہا جاسکتا ہے کہ ایسا حکمران عادل اور عند اللہ ’مقسط‘ ہے۔‘‘ (سیاست ِشرعیہ: ص ۹۶)
پھر منصب کی دو بنیادی اہلیتوں کا ذکر کرتے ہوئے امام صاحب فرماتے ہیں :
’’صاحب ِمنصب کے لئے قوی اور امین ہونا بنیادی اوصاف ہیں ۔ اور قوت سے مقصودعلم وعدل اور اپنے احکام کو نافذ کرنے کی اہلیت ہے جبکہ امانت سے مراد خشیت ِالٰہی اور حقوقِ الٰہی کو قلیل متاع دنیا کے عوض فروخت نہ کردینا ہے۔‘‘ (ایضاً: ص ۹۷)
چنانچہ اسلام میں منصب پر تعین اہلیت کی بنا پر ہی ہوتا ہے، نہ کہ کسی اور بنا پر اور جو شخص یہ ذمہ داری ایسے فرد کو تفویض کرے جواس کا اہل نہیں ہے تو ایسے شخص کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے سخت الفاظ میں وعید نازل فرمائی ہے :
((من وُلِّي من أمر المسلمین شیئًا فولّٰی رجلاً وہو یجد من ہو أصلح للمسلمین فقد خان ﷲ ورسولہ)) (مستدرک حاکم، فتاویٰ ابن تیمیہ: ۶/۳۶۹ )
’’جس شخص کو مسلمانوں کے معاملات میں کوئی ذمہ داری سونپی گئی اور اس نے کسی شخص کو آگے منصب پر فائز کیا ، حالانکہ اس منصب کے لئے اس سے بہتر شخص موجود تھا تو آگے منصب پر فائز کرنے والا یہ شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کی امانت) میں خیانت کا مرتکب ہے۔‘‘
ایک اور فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ سے بھی آیا ہے کہ
((من استعمل رجلاً من عصابۃ وہو یجد في تلک العصابۃ أرضٰی منہ فقد خان ﷲ وخان رسولہ وخان المؤمنین)) (مستدرک حاکم:۴/۹۲)
’’جس نے ایک جماعت پر ایسے شخص کو ذمہ داری سونپی حالانکہ اس جماعت میں اس سے زیادہ موزوں اور بہتر شخص موجود تھا تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کا ارتکاب کیا۔‘‘
4. مسلمانوں میں کسی کو ذمہ داری دینے کا مقصد صرف حکومت اور شریعت ِالٰہیہ کا قیام ہونا چاہئے نہ کہ کوئی اور دوسری منفعت۔ قرآنِ کریم کی اس آیت کے دوسرے جز﴿اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ﴾ سے حاصل ہونے والا یہ دوسرا بنیادی اُصول ہے۔
یوں تو اس آیت کا بکثرت حوالہ دیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں عدل کا مفہوم مطلق اور وسیع معنی میں لیا جاتا ہے جب کہ اسلام میں عدل کے مفہوم کا تعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ