کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 7
موقع پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور آپ نے بیت اللہ کی چابیاں بنو شیبہ سے لے کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دینے کا قصد کیا تو اللہ تعالیٰ کو یہ اَمر ناگوار گزرا اور اللہ نے روکتے ہوئے یہ حکم نازل فرمایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ بن طلحہ کا خاندان چونکہ پہلے بیت اللہ کا کنجی بردار تھا، اور اُنہوں نے اپنی ذمہ داری بہ طریق احسن انجام دی تھی، اس لئے اب بھی یہ ذمہ داری اُنہی کو تفویض کی جانی چاہئے۔ (تفسیر ابن کثیر: زیر آیت ِمحولہ بالا)
چنانچہ بیت اللہ کی چابیوں کی ذمہ داری کے لئے حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ بن طلحہ کے خاندان کو منتخب کرنے کی بنیاد ان کی ماضی کی وہ ثابت شدہ اہلیت تھی جو مستقبل میں بھی اس امر کی قوی ضمانت ہے کہ وہ آئندہ بھی اس منصب کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہوں گے۔
بعض اوقات ایسے تو نہیں ہوتا کہ ماضی میں کسی شخص نے کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہوں لیکن اس متعلقہ فرد میں یہ اہلیت بالقوۃ موجود ہوتی ہے کہ یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ شخص دیگر اُمور میں اپنی ذمہ دارانہ روش کی بنا پر مزید سونپے جانے والے معاملات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا، لیکن اس نوعیت کی اہلیت کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا بھی پائی جاسکتی ہیں ، جیسا کہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو غزوات پر امیر بناتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
((إن تطعنوا في إمارتہ فقد کنتم تطعنون في إمارۃ أبیہ من قبل وأیم ﷲ إن کان لخلیقا للإمارۃ وإن کان لَمِن أحب الناس إليَّ وإن ہذا لَمِن أحب الناس إليّ بعدہ)) (صحیح بخاری: ۴۴۶۹)
’’تم اس کی امارت کے بارے میں اعتراض کرتے ہو، اور تم اس سے قبل ا س کے والد کے بارے میں بھی یہی رویہ اختیار کرچکے ہو۔ واللہ! یہ امارتِ لشکر کے لئے بالکل موزوں ہے، اس کا والد میرے لئے محبوب ترین تھا اور یہ بھی اس کے بعد میرے لئے محبوب ترین ہے۔‘‘
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کسی بھی منصب پر تعیناتی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’اَصلح (اہل و موزوں ترین) فر د موجود ہے تو ولی الامر کا فرض یہ ہے کہ وہ اُسے ولایت واختیار عطا کرے، اگر اَصلح موجود نہ ہو تو پھر صالح کو یہ ذمہ داری تفویض کرنی چاہئے۔ ہرمنصب اور عہدے کے مناسب حال الامثل فالامثل کو مقرر کرنا والی کا فرض ہے۔ اگر والی نے اپنی طرف سے پوری کوشش اور جدوجہد کے بعد ایسا کردیا تو اس نے ولایت وخلافت کا حق ادا کردیااور