کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 6
إضاعتہا؟ قال : ((إذا وُسِّد الأمر إلی غیر أھلہ فانتظر الساعۃ))
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب امانت ضائع کی جانے لگے تو پھر قیامت کا انتظارکرو۔ صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ! امانت کے ضیاع سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جب ذمہ داریوں کو نااہل افراد کے سپرد کیا جانے لگے تو پھر قیامت[1] کا انتظار کرو۔‘‘ (صحیح بخاری: ۵۹)
اسلام کی رو سے تمام اختیارات کی مالک اللہ جل جلالہ کی ذاتِ باری تعالیٰ ہے یعنی حاکمیت ِالٰہیہ۔ اور دنیا میں جو شخص بھی اس اختیار کو استعما ل کرتا ہے، اسے اس اختیار کو اللہ کی ایک امانت سمجھ کر ہی استعمال کرنا چاہئے، اوریہ مناصب بھی من مانی اور حکمرانی چلانے کی بجائے اسی جذبے اور تصور سے اہل افراد کو دیے جانے چاہئیں تاکہ وہ ان کا حق ادا کریں ۔
2. اسلام کی نظر میں یہ منصب اور ذمہ داری ایک اعزاز کی بجائے ایسی ذمہ داری اور امانت ہے جس کا محاسبہ بڑا شدید ہوگا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((إنہا أمانۃ وإنہا یوم القیامۃ خزي وندامۃ، إلا من أخَذَہا بحقہا وأدّٰی الذي علیہ فیہا)) (صحیح مسلم: ۱۸۲۵)
’’یہ منصب ایک ذمہ داری ہے جو روزِ قیامت رسوائی اور ندامت کا موجب ٹھہرے گی۔ ماسوا اس شخص کے جو اس حالت میں اس پر فائز ہوا کہ وہ اس کا حق رکھتا تھا او راس نے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی پوری کوشش کی۔‘‘
3. اسلام کا مسلم ذمہ داران سے تقاضا یہ ہے کہ وہ اجتماعی ذمہ داریوں پر ایسے افراد کو فائز کریں بلکہ مسلمانوں کی خدمت اُنہیں پر مامور کریں جواس کی بہتر اہلیت رکھتے ہوں ۔
اہلیت کی دو صورتیں ہیں : اہلیت بالفعل یا اہلیت بالقوۃ
یعنی ایسے شخص کا ماضی اس امر کا آئینہ دار ہو کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتا ہو اور ماضی میں دی گئی ذمہ داریوں کو ذاتی اختیار وتعیش میں صرف کرنے کی بجائے قومی مصالح اور منصب کے فرائض کو نبھانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہو۔
اس سلسلے میں مذکورہ بالا آیت کا شانِ نزول مزید رہنمائی کرتا ہے۔ یہ آیت فتح مکہ کے
[1] اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قیامت کے انتظار سے مراد یا تو اجتماعی ہلاکت وبربادی ہے، یا انفرادی موت یا عذاب جیساکہ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے المفرداتمیں الساعۃ کے یہی تین معانی بیان کئے ہیں۔ (۱/۵۱۳ مترجم)