کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 57
آپ رضی اللہ عنہ نے بار بار پوچھا مگر کسی نے جواب نہ دیا پھر آپ نے بڑے بڑے کوفیوں کو نام لے کر کر پکارنا شروع کیا: اے شیث بن ربیع! اے حجار بن بجر! اے قیس بن اشعث! اے یزید بن حارث! کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک گئے ، زمین سرسبز ہوگئی، نہریں اُبل پڑیں ۔ اگر آپ آئیں گے تو اپنی جرار فوج کے پاس آئیں گے سو جلد آ جائیے۔
اس پر اُن لوگوں نے انکار کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے چلا کر کہا : واللہ! تم ہی نے لکھا تھا۔ آخر میں آپ نے کہا: اگر مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑ دو میں یہاں سے واپس چلا جاتا ہوں ۔
قیس بن اشعث نے کہا: آپ اپنے آپ کو اپنے عم زادوں کے حوالے کردیں ۔ اس کے جواب میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ! میں ذلت کے ساتھ کبھی اپنے آپ کو اُن کے حوالے نہیں کروں گا۔‘‘
جس وقت ابن سعد نے فوج کو حرکت دی تو حُر اُن سے کٹ کر علیحدہ ہونے لگا تو مہاجر بن اوس نے اس سے کہا: مجھے تمہاری حالت مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ حُر نے سنجیدگی سے جواب دیا: خدا کی قسم! میں جنت یا دوزخ کا انتخاب کررہا ہوں ۔ بخدا میں نے جنت منتخب کرلی ہے۔ یہ کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگا لشکرحسین رضی اللہ عنہ میں پہنچ گیا اور نہایت عاجزی اور انکساری سے معافی کا خواستگار ہوا، آپ رضی اللہ عنہ نے اُسے معاف فرما دیا۔
جنگ کی ابتدا
اس واقعہ کے بعد عمرو بن سعد نے کمان اُٹھائی اور لشکر ِحسین رضی اللہ عنہ کی طرف یہ کہہ کر تیر پھینکا کہ گواہ رہو، سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے۔
مختصر سی مبارزت طلبی کے بعد عمرو بن سعد کی فوج لشکر حسین رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑی۔ ہر طرف جنگ کا میدان گرم ہوگیا اور خون کے فوارے اُبلنے لگے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے شیردل سپاہی جس طرف رخ کرتے، صفوں کو اُلٹ دیتے تھے۔ مگر کثیر تعداد دشمن ذرا سی دیر میں پھر ہجوم کر آتا تھا۔ چند گھنٹوں میں لشکر ِحسین رضی اللہ عنہ کے بڑے بڑے نامور بہادر مسلم بن عوسجہ، حُر اور حبیب بن مظاہر شہید ہوگئے۔ جب دشمن کے سپاہی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قریب پہنچے تو نماز کا وقت قریب تھا۔آپ نے ابوثمامہ سے فرمایا: دشمنوں سے کہو کہ ہمیں نماز کی مہلت دیں ۔ مگر دشمن نے یہ درخواست منظور نہ کی اور لڑائی بدستور جاری رہی۔