کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 56
صرف مجھے چاہتے ہیں اور میری جان لے کر تم سے غافل ہوجائیں گے۔‘‘ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے اہل بیت فرطِ بے قراری سے تڑپ اُٹھے اور سب نے بالاتفاق آپ سے وفاداری اور جاں نثاری کا عہد کیا۔ جب وفاداروں کی گرم جوشیاں ختم ہوئیں تو نماز کے لئے صفیں آراستہ کی گئیں ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا ساری رات نماز، استغفار، تلاوتِ قرآن،دعا و تضرع میں مشغول رہے اور دشمن کے تیغ بکف سوار رات بھر لشکر حسین رضی اللہ عنہ کے گر چکر لگاتے رہے۔ ۱۰ محرم ۶۱ہجری کوجمعہ کے دن نمازِ فجر کے بعد عمرو بن سعد چار ہزار سواروں کو لے کر نکلا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں ۔ لشکر حسین رضی اللہ عنہ محض گنتی کے سواروں اور چند پیدل افراد پر مشتمل تھا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا دردناک خطبہ جب دشمن کی فوج نے پیش قدمی کی تو اس مجسمۂ ایثار و قربانی اور صبر واستقامت کے پیکر نے ان کے سامنے بہ آوازِ بلند مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا: ’’لوگو! میرا حسب نسب یاد کرو۔ سوچو! میں کون ہوں ۔ پھراپنے گریبانوں میں نظر ڈالو اور اپنے ضمیر کا محاسبہ کرو۔ کیا تمہارے لئے مجھے قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑکی کا بیٹا، ان کے چچیرے بھائی علی رضی اللہ عنہ کا فرزند نہیں ہوں ۔ کیا سید ِشہدا حمزہ رضی اللہ عنہ میرے باپ کے چچا نہیں تھے۔ کیا ذوالجناحین جعفر طیار رضی اللہ عنہ میرے چچا نہیں ؟ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے اور میرے بھائی کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا: سیدا شباب أہل الجنۃ (جوانانِ جنت کے سردار) اگر میرا بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے، کیونکہ واللہ میں نے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک جھوٹ نہیں بولا تو بتاؤ کیا تمہیں برہنہ تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا چاہئے؟ کیا یہ بات بھی تمہیں میرا خون بہانے سے نہیں روک سکتی؟ واللہ اس وقت روے زمین پر بجز میرے، کسی نبی کی لڑکی کا بیٹا موجود نہیں۔ میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بلا واسطہ نواسہ ہوں ۔ کیا تم مجھے اس لئے ہلاک کرنا چاہتے ہو کہ میں نے کسی کی جان لی ہے؟ کسی کا خون بہایا ہے؟ کسی کا مال چھینا ہے۔ کہو کیا بات ہے… آخر میرا قصور کیا ہے؟‘‘