کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 55
دستہ نے ساتویں محرم سے پانی روک دیا۔ عبداللہ بن ابو حسین شامی نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر کہا: حسین رضی اللہ عنہ پانی دیکھتے ہو، کیسا آسمان کے جگر کی طرح جھلک رہا ہے ،لیکن خدا کی قسم تمہیں ایک قطرہ بھی نہیں مل سکتا، تم اسی طرح پیاسے مروگے!
جب لشکر ِحسین رضی اللہ عنہ پر پیاس کا غلبہ ہوا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سوتیلے بھائی حضرت عباس بن علی بیس سواروں اور بیس پیادہ افراد کے ساتھ گئے اور پانچ سو شامیوں کا مقابلہ کرکے پانی کی مشکیں لے آئے۔
رات کے وقت ابن سعد اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے درمیان بڑی دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ روایت ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے تین تجویزیں پیش کیں :
اوّل: یہ کہ یزید کے پاس بھیج دیا جائے۔
دوم : واپس جانے کی اجازت دی جائے۔
سوم: کسی سرحدی مقام پربھیج دیا جائے۔
مگر ابن سعد نے منظور نہ کیا۔ اسی دوران ابن زیاد کا دوسرا حکم پہنچا کہ تم حسین رضی اللہ عنہ کے سفارشی بنتے ہو، اُ نہیں ڈھیل دیتے ہو، اگر وہ میرا حکم نہیں مانتے تو حملہ کرکے میدان صاف کردو۔ اگر تم اس کے لئے تیار نہیں ہو تو فوج کی کمان ذی الجوشن کے حوالے کردو۔
اس کے بعد ۹ محرم کو عصر کے وقت اس نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نماز و دعا کے لئے ایک رات کی اجازت چاہتا ہوں ۔
رات کے وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو ایک دردناک خطبہ دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’الٰہی! تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمارے گھرانے کو نبوت سے مشرف فرمایا اور دین کی سمجھ اور قرآن کا فہم عطا فرمایا۔ لوگو! میں نہیں جانتا کہ آج روے زمین پرمیرے ساتھیوں سے افضل اور بہتر لوگ بھی موجود ہیں یا میرے اہل بیت سے زیادہ ہمدرد و غمگسار کسی کے اہل بیت ہیں ۔ اے لوگو! خدا تمہیں جزاے خیر دے۔ کل میرا اور اُن کا فیصلہ ہوجائے گا۔ غوروفکر کے بعد میری رائے ہے کہ رات کے اندھیرے میں تم سب خاموشی سے نکل جاؤ اور میرے اہل بیت کو ساتھ لے جاؤ۔ میں خوشی سے تمہیں رخصت کرتا ہوں ۔ مجھے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ یہ لوگ