کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 54
ساتھ لگے رہیں یہاں تک کہ کوفہ میں آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچا دیں ۔ اس موقع پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے قافلہ اہل بیت کو واپس لوٹانا چاہا مگر حُر نے راستہ روک لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ کی طرف جانا چاہتے تھے مگر حر چاہتا تھا کہ آپ کو کوفہ لے جایا جائے۔ مزید گفتگو کے بعد حُر نے یہ اجازت دی کہ اگر آپ کوفہ نہیں جانا چاہتے تو آپ ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ کو جائے اور نہ مدینہ کو۔ اسی دوران میں مَیں ابن زیاد کو لکھتا ہوں اور آپ یزیدکو لکھیں ، ممکن ہے عافیت کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ اس قرار داد کے بعد آپ ایک ایسے راستے پر روانہ ہوئے جس کی آخری المناک منزل کربلا تھی۔ میدانِ کرب و بلا از واقعۂ شہادت سیدناحسین رضی اللہ عنہ ابن زیاد کی طرف سے حُر کوحکم دیا گیاکہ قافلہ اہل بیت کو ایک ایسے میدان میں گھیر کر لے جاؤ جہاں کوئی قلعہ اور پانی کا چشمہ نہ ہو۔ اس حکم کے بعدحُـرّ نے مزاحمت کی۔ یہ ۲ محرم ۶۱ہجری کا واقعہ ہے کہ قافلۂ اہل بیت اپنے آخری مستقر یعنی نینوا کے میدان کرب و بلا میں خیمہ زن ہوگیا۔ زہیر بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا: یا ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آئندہ جو وقت آئے گا، وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔ ابھی لڑنا آسان ہے، اس دستہ کے بعد جو فوجیں آئیں گی، ہم اُن کے ساتھ لڑ نہ سکیں گے، لیکن اس مجسمہ ؓ شرافت و ایثار نے جواب میں فرمایا کہ ’’میں اپنی طرف سے لڑائی کی ابتدا نہ کروں گا۔‘‘ ۳ محرم ۶۱ہجری کو عمرو بن سعد چار ہزار فوج کے ساتھ آپ کے مقابل آکھڑا ہوا۔ عمروبن سعد نے قرہ بن سعد حنظلی کو ملاقات کے لئے بھیجا تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے تمہارے شہر والوں نے خطوط لکھ کر بلایا ہے، اب اگر میرا آنا تم کو پسند نہ ہو تو میں لوٹ جاتا ہوں ۔ ابن سعد اس جواب سے بہت متاثر ہوا اور تمام واقعہ ابن زیاد کو لکھ کر بھیجا۔ اس نے جواب دیا کہ تم حسین رضی اللہ عنہ اور اس کے ساتھیوں سے یزید کی بیعت لو۔ اگر وہ بیعت کرلیں تو پھر دیکھا جائے گا۔ اس کے بعد ہی دوسرا حکم یہ پہنچا کہ قافلہ اہل بیت پر پانی بند کردیا جائے۔ اس حکم پر ابن سعد نے پانچ سو سواروں کا ایک دستہ دریاے فرات پر پانی روکنے کے لئے متعین کردیا۔ اس