کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 53
کردیا کہ آپ ہرگز ہرگز کوفہ کا قصدنہ کریں ، آپ وہاں یقینا شہید کردیئے جائیں گے۔ جب ثعلبہ میں پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہ کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی المناک اطلاع ملی، اس موقعہ سے فائدہ اُٹھا کر بہی خواہوں نے پھر عرض کیا کہ آپ یہیں سے واپس لوٹ جائیں ، لیکن مسلم رضی اللہ عنہ کے بھائیوں نے پیش قدمی کی رائے دی۔ اس طرح اہل بیت کا قافلہ ایک منزل اور آگے بڑھ گیا۔ زبار پہنچ کر آپ کو اپنے قاصد عبداللہ بن بقطر کے قتل کی اطلاع ملی اور ساتھ ہی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق آدمی پہنچے کہ یہاں کا حال بدل چکا ہے۔ اس موقعہ پرسیدناحسین رضی اللہ عنہ نے ساتھیوں کو جمع کرکے ایک پُردرد تقریر فرمائی ۔ جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ہمارے شیعوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ جو شخص لوٹنا چاہے وہ خوشی سے الگ ہوجائے، ہمیں کوئی شکایت نہیں ۔‘‘
اس پر بے شمار لوگ جو راستہ میں آپ کے ساتھ ہوگئے تھے، الگ ہوگئے اور صرف وہی وفا شعار جاں نثار ساتھ رہے جو مدینہ سے آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئے تھے۔ بطن عقبہ پر آپ کو پھر واپسی کی ترغیب دی گئی مگر آپ نے فرمایا: ’’خدا کے حکم کے خلاف نہیں کیاجاسکتا۔‘‘
خونیں سال کی ابتدا
جب آپ شراف میں پہنچے تو محرم ۶۱ہجری کا خونیں سال شروع ہوا اور اسی مقام پر حُر بن یزید تمیمی ایک ہزار سواروں کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کے مقابل آٹھہرا۔ نمازِ ظہر کے وقت آپ نے حُر کے لشکر کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا کہ
’’میں تمہاری دعوت اور عہدوپیمان کے مطابق یہاں آیا ہوں ۔ میرے پاس اس مضمون کے تمہارے خطوط اور قاصد آئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں ۔ آپ آئیے شائد خدا آپ ہی کے ذریعے ہمیں سیدھے رستہ پر لگا دے۔چنانچہ اب میں آگیا ہوں ، اگر تم لوگ میرے ساتھ پختہ وعدہ کرکے مجھے یقین دلا دو تو میں تمہارے شہر میں چلوں ۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرتے اور تمہیں ہمارا آنا ناپسند ہو تو میں جہاں سے آیا ہوں ، وہیں لوٹ جاؤں ۔‘‘
نمازِ عصر کے بعد آپ نے پھر اسی مضمون کی تقریر کی تو حُر نے جواب دیا کہ ہمارا خط لکھنے والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ ہم ابن زیاد کے سپاہی ہیں اور ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم آپ کے