کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 52
آخر میں ابوبکر بن حارث نے کہا کہ ہم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑی شخصیت کس کی ہوگی؟ مگر اہل عراق نے دنیا کے لالچ میں ان کا ساتھ بھی چھوڑ دیا پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بے وفائی کی۔ ان زندہ تجربات کے بعد آپ اپنے والد ماجد کے دشمنوں سے بھلائی کی کیا توقع رکھتے ہیں ؟ لیکن سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس پر بھی اپنا ارادہ نہ بدلا اور اُنہیں صرف یہی جواب ملا کہ خدا کی مرضی پوری ہوکر رہے گی اور اہل بیت کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہوگئے۔
حالاتِ سفر
اثناے سفر بھی آپ کے بعض احباب نے بذریعہ خطوط عرض کی کہ سفر کے ارادہ کو ترک کردیجئے مگر تقدیر آپ کو کشاں کشاں منزل مقصود یا میدانِ کربلا کی طرف لے جارہی تھی، اس لئے آپ پر کسی کی اپیل یا مشورے کا کوئی اثر نہ ہوا۔ عمروبن سعد کے خط کے جواب میں لکھا کہ
’’جو شخص اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہے ۔ عمل صالح کرتا ہے اور اسلام کا معترف ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیونکراختلاف کرسکتا ہے۔ تم نے مجھے امان، بھلائی اور صلہ رحمی کی دعوت دی ہے۔ پس بہترین امان اللہ تعالیٰ کی امان ہے۔ جوشخص دنیا میں خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتا، خدا قیامت کے دن اُسے امن نہیں دے گا۔ اس لئے میں دنیا میں خدا کا خوف چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے دن میں اس کی امان کا مستحق ہوجاؤں ۔ اگر خط سے تمہاری نیت میرے ساتھ صلہ رحمی اور بھلائی کی ہے تو خدا تمہیں دنیا و آخرت میں جزاے خیر دے۔‘‘
ادھر اہل بیت ِکرام کا قافلہ منازل طے کررہا تھا۔ ادھر ابن زیاد نے قادسیہ سے لے کر خفان، قطقطانہ اور جبل بَعْلع تک جاسوس اور سوار روانہ کردیئے تاکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نقل و حرکت کی جملہ خبریں ملتی رہیں ۔
سیدناحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاجز پہنچ کر قیس بن مسہر کے ہاتھ اہل کوفہ کو اپنی آمد کا خط ارسال کیا، لیکن ابن زیاد کے تمام انتظام مکمل تھے۔ قیس کو قادسیہ میں گرفتار کرلیا گیا اور ابن زیاد نے اسے چھت سے گرا کر شہید کردیا۔
بطن رملہ کے مقام پر عبداللہ بن مطیع سے آپ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی، اس نے صاف طور پر بیان