کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 51
اس کے بعد آپ کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ محمد بن اشعث نے کہا کہ میں مسلم کوپناہ دے چکا ہوں ، لیکن ابن زیاد نے اسے تسلیم نہ کیا اور حکم دیا کہ اُنہیں قتل کردیا جائے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ابن زیاد کی اجازت سے عمرو بن سعد کو وصیت کی کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آرہے ہوں گے، ان کے پاس آدمی بھیج کر اُنہیں راستہ ہی میں واپس کردیا جائے۔ وصیت ہوچکی تو آپ کو محل کی بالائی منزل پر لے جاکر شہید کردیا گیا اور آپ کی لاش اورسر نیچے پھینک دیئے گئے۔ اس طرح حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی صورت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ایک نہایت قوی بازو ٹوٹ گیا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون! مکہ مکرمہ سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی روانگی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے پہلا خط جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا تھا کہ تمام شہر آپ کی تشریف آوری کا منتظر ہے، تشریف لے آئیں ۔ آپ یہ خط دیکھتے ہی سفر کے لئے تیار ہوگئے۔ جب دوستوں اور عزیزوں کو علم ہوا تو اُنہوں نے آپ کونہایت شدت سے روکا۔ عمرو بن عبدالرحمن نے کہا کہ کوفہ کے لوگ روپے پیسہ کے غلام ہیں جو لوگ آج آپ کو بلاتے ہیں ، وہی کل آپ سے جنگ کریں گے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ آپ مکہ سے حرکت نہ کریں عراقی آپ کو یقینا بے یارومددگار چھوڑ دیں گے۔ تدبیر اور تقدیر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ پھر دوسرے دن آپ کے پاس آئے اور کہا کہ اے میرے چچیرے بھائی! آپ کے سفر کے بارے میں میرا دل سخت بے قرار ہے۔ آپ صرف اہل کوفہ کو لکھیں کہ تم پہلے شامیوں کو نکال دو، پھر میں کوفہ پہنچ جاؤں گا۔ لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ رضا مند نہ ہوئے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جب بالکل مایوس ہوگئے تو کہا اگر جاتے ہو تو عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ نہ لے جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ آپ بھی عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح عورتوں اور بچوں کے سامنے قتل نہ کردیئے جاؤ اور وہ دیکھتے ہی رہ جائیں ، لیکن کارکنانِ قضا و قدر کو کچھ اور ہی منظور تھا، اس لئے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئیں ۔