کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 5
﴿اِنَّ اﷲَ یَأمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْا الْاَمَانٰتِ إِلیٰ اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ﴾ (النساء: ۵۸)
’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ اجتماعی ذمہ داریوں کو ان کے اہل افراد کو ادا کریں اور لوگوں میں انصاف کا مرحلہ درپیش ہو تو شریعت ِاسلامیہ سے ہی فیصلہ کریں ۔‘‘
یہ آیت اسلام کے نظامِ سیاسی کا مرکز و محور ہے جس میں کئی بنیادی تصورات کی نشاندہی کی گئی ہے، مثلاً
1. اللہ تعالیٰ نے مناصب یعنی ذمہ داریاں اہل افراد کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اہل افراد کو ذمہ داری تفویض (ادا)کرنا ایک فرض ہے، نہ کہ حق۔ اس فرض کے مخاطب ومکلف متعدد مفسرصحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم [1] کے نزدیک عوام الناس کی بجائے مسلمانوں کے اہل حل وعقد یا ذمہ دار لوگ (مسلمانوں کے اولیا واُمرا) ہیں ۔
2. یہ آیت اجتماعی ذمہ داریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کو ’امانت‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے،گویا یہ اختیار اور منصب اللہ کی طرف سے ایک ’امانت‘ ہے جس کی ادائیگی میں کوتاہی خیانت کے مترادف ہے۔
3. اس آیت میں مندرج اہلیت سے مراد ایسے افراد کومناصب پرفائز کرنا ہے جو اللہ کے قانون کو اللہ کی سرزمین پر بہتر طور پر نافذ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں تاکہ معاشرے میں اللہ کے قانون کی عمل داری ہو۔
آیت کے مذکورہ بالا مفاہیم پرقرآن وسنت کی کئی آیات واحادیث واضح دلیل ہیں ، مثلاً
1. کسی اہل فرد کو تعین کرنا ایک حق نہیں بلکہ ایک فرض اور بار ہے جس کو بہ احسن طور انجام دینا انتہائی ضروری ہے۔چنانچہ جو شخص اس ذمہ داری کو صحیح طورپر انجام نہیں دیتا، اس کے بارے میں زبانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید وعید آئی ہے:
قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم : ((إذا ضُیِّعَتِ الأمانۃ فانتظر الساعۃ)) قال: کیف
[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب، ابن عباس رضی اللہ عنہ ، زید رضی اللہ عنہ بن اسلم، شہر رحمۃ اللہ علیہ بن حوشب اور مکحول رحمۃ اللہ لعیہ نے کہا کہ یہ آیت اُمرا او ر حکام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔تفسیر ابن جریر: ۵/۱۴۵، ابن کثیر ۲/۳۲۱، قرطبی: ۵/۲۵۶… مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: ’محدث‘ بابت۱۹۷۹ء کا خاص نمبر ’جمہوریت یا اسلام‘:ص ۴۵