کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 49
ولید نے مروان بن حکم کو مشورہ دیا کہ اگر ذرا بھی لیت و لعل کریں تو قتل کردو۔ اگر یہ دونوں اس وقت نکل گئے تو پھر قابو نہ آئیں گے۔ ولید نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ چونکہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی علالت کی خبریں مدینہ میں مشہور تھیں ، اس لئے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنی حفاظت کے لئے ایک جماعت کو اپنے ساتھ لیتے گئے جب ملاقات ہوئی تو ولید نے بیعت کا مطالبہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کی تعزیت کی پھر فرمایا کہ میں چھپ کر بیعت نہیں کرسکتا، عام لوگوں کو بلاؤ گے تو میں بھی آجاؤں گا۔ اسی اثنا میں یہ خبر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوبھی پہنچ گئی اور وہ رات ہی رات مکہ کی طرف نکل گئے۔ چونکہ ولید دن بھر اُن کی تلاش میں سرگرداں رہا، اس لئے وہ سیدناحسین رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا۔ اس نے دوسرے دن آپ کو بلایا تو آپ نے ایک دن کی مہلت مانگی، اسی اثنا میں اہل عراق کے پے درپے پیغامات پہنچے کہ آپ خلافت کو قبول کیجئے۔ اسی کشمکش میں محمد بن حنفیہ کے مشورہ سے آپ شعبان ۶۰ ہجری میں مدینہ سے نکل کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔
انکارِ بیعت کی وجوہات
1. خلفاے راشدین خلیفہ کے انتخاب میں بہت محتاط تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں تو احادیث ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و کنایات سے کام لیا گیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت بھی قریباً یہی چیز کام آئی۔ بعد میں شوریٰ سے انتخاب ہوتا رہا۔ مگر یزید کی امارت کے متعلق اس اُصول کی پابندی نہ کی گئی۔
2. مسلمانوں میں یزید سے بہتر صحابہ رضی اللہ عنہم و اہل بیت رضی اللہ عنہم موجود تھے جنہیں نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
3. یزید ذاتی طور پر خلافت کا اہل نہیں تھا ، فسق وفجور اور کبیرہ گناہوں کا مرتکب تھا۔
4. اہل عراق آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو پسند کرتے تھے۔
ان وجوہات کے باعث سیدناحسین رضی اللہ عنہ یزید کی خلافت کے مخالف رہے۔
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی شہادت
مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو تحقیق حالات کے لئے کوفہ بھیجا اور ایک