کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 47
اور انسانی ہمدردی اور رحم کا نتیجہ ہے۔ مگر ہاتھ (سے پیٹنا )اور زبان (سے بین کرنا) یہ سب شیطانی اعمال ہیں ۔‘‘ اور
نہٰی رسول ﷲ ! عن المراثي (سنن ابن ماجہ:۱۵۹۲)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیہ خوانی سے منع فرمایا ہے۔‘‘
دوستو!یہ ہے وہ اُسوئہ حسنہ جس کی اتباع ہر مسلمان کا فرضِ اوّلین ہے اور ایک خاص طبقہ کا سال محرم کے دس ابتدائی دنوں میں نت نئے افعالِ کا ارتکاب سنت ِنبوی کے سراسر خلاف ہے بلکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی سے استہزا ہے۔ یہ کس قدرمضحکہ خیزی کی بات ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تو ملت ِاسلامیہ کے سامنے شجاعت سے ودلیری سے اُسوۂ شہادت پیش کریں اور ہم میں سے کچھ لوگ اس عظیم اُسوۂ شہادت پر سینہ کوبی کریں ۔
ایک مسلمان کا یہ افسوسناک منظر دیکھ کر کلیجہ شق ہوجاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ایسے مجاہد و موحد کی عظیم الشان شہادت کی یادگار کو تعزیوں کی صورت میں بازاروں اور گلی کوچوں میں اُٹھائے پھرنا اور پھر ایک فرضی کربلا میں یہ تعزیے پھینک دینا اور پھر سارا سال اُنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
مروّجہ رسوم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی توہین ہیں
تعزیہ داری، گھوڑا وغیرہ جیسی رسوم کی حقیقت پر غور وخوض کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مردانہ وار شہادت کا ان رسوم سے ذرہ بھر بھی تعلق نہیں بلکہ یہ رسوم اس عظیم الشان شہادت کی توہین کے مترادف ہیں ۔
کاش یہ حضرات ان افعال و رسومات کی حقیقت و اصلیت اور نتائج و عواقب پر غور کریں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان قربانی کی ان بصیرتوں کے حصول کی کوشش کریں جو مسلمانوں کو ثریٰ سے نکال کر ثریا تک پہنچا سکتی ہیں ۔
اب ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے اصل واقعات اور آپ رضی اللہ عنہ کی مختصر تاریخ جو صحیح و مستند کتب میں مروی ہیں کو ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں تا کہ حب ِحسین میں غلو کے نتیجے میں وضع کی گئی روایات سے مبرا حقائق سامنے لائے جائیں اورفرضی روایات سے بچا جا سکے۔