کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 46
آج اکثر طور پر کی جاتی ہیں ، سخت منع ہے۔چنانچہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((أَنَا بَرِیٌٔ مِمَّنْ حَلَقَ وَسَلَقَ وَخَرَقَ)) (صحیح مسلم:۱۰۴)
’’ جس نے (نوحہ کے لیے) سر کے بال منڈوا دیئے یابلند آواز سے بین کئے یا کپڑے پھاڑے، میں اس سے بیزار ہوں ۔‘‘
نیز فرمایا:
((لیس مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدودَ وشقَّ الجُیُوب ودَعا بدعوٰی الجاھلیۃ))
’’جس نے(نوحہ کے لیے) کرتے ہوئے منہ کو پیٹا، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کے بین کئے، وہ ہم سے نہیں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۲۹۷ )
اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً یہ اُسوئہ حسنہ پیش کیا کہ اپنے فرزند دل بند ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر فرمایا: ((العینُ تدمع والقلب یحزُن ولا نقول إلا ما یرضٰی ربنا))
’’دل غمگین ہے، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں مگر زبان سے وہی لفظ نکلیں گے جن سے ہمارا ربّ راضی ہو۔‘‘ (صحیح بخاری :۱۳۰۳ )
اور اپنی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے لڑکے کی وفات کی خبر سن کر اس کو یہ پیغام بھیجا:
((إن ﷲ ما أخَذَ ولہ ما أعطٰی وکل عندہ بأجل مسمّٰی فَلتصبر ولتحتسب))
’’اللہ کا مال تھا جو اُس نے لے لیا اور جو اُس نے دے رکھا ہے، وہ بھی اسی کا ہے اور ہر ایک کے لئے اس کے پاس ایک مقررہ وقت ہے۔ چنانچہ(بیٹی تو) صبر سے کام لے اور اس پر اللہ سے ثواب کی اُمیدوار رہ۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۲۸۴)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کے فوت ہوجانے پر عورتوں نے رونا شروع کردیا۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ان عورتوں کو اپنے کوڑے سے مارنے لگے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو اُن عورتوں کو پیچھے ہٹایا اور فرمایا: اے عمر رضی اللہ عنہ ! ٹھہر جا۔ پھر عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: دیکھو! شیطانی آواز مت نکالو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إنہ مھما کان من العین والقلب فمن ﷲ عزوجل ومن الرحمۃ وما کان من الید ومن اللسان فمن الشیطان)) (مسنداحمد:۱/۲۳۷)
’’میت کے غم میں جہاں تک دل کے غم اور آنسوؤں کا تعلق ہے، سو یہ تو اللہ کی طرف سے ہے