کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 45
وزیر بیرم خان کو بھیج کر۴۶ تولہ کا ایک زمردین تعزیہ منگوایا جہاں سے ہندوستان میں اس رسم کی ابتدا ہوتی ہے۔شریعت ِمحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اہل بیت کا اُسوئہ حسنہ اور ’محبانِ اہل بیت ‘ کا طرزِ عمل
اب دیکھنا یہ ہے کہ آغازِ محرم سے جن حرکات و سکنات اور افعال و اعمال کا ارتکاب کیا جاتا ہے؛کیا واقعتا وہ اہل بیت کی محبت کا تقاضا ہے؟ یہ ایک مسلمہ اُصول ہے کہ محبوب کی ہر اَدا پر محبت کرنے والا دل و جان سے شیدا ہوتا ہے اورمحبوب کا قرب حاصل کرنے کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرتاہے جو محبوب کے نزدیک اَنسب اور وجہ ِ مسرت ہو۔ اگر اس کے خلاف کرے گا تو محبوب کی ناراضگی اور مفارقت کا موجب ہوگا۔ افسوس اور صد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان حضرات نے اہل بیت کی محبت میں وہ طریقہ اختیار کیا ہے جس پر اہل بیت اور خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہیں اور وہ اپنے اَعمال سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے اُن کو محبت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت رضی اللہ عنہم نے ایسے افعال کا نہ تو حکم دیا اور نہ ہی خواہاں تھے،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے تو یہی اخذ ہوتا ہے کہ وہ دین میں خرافات وبدعات کے سخت دشمن تھے، لہٰذا اس بنا پر ایسی خرافات کے مرتکب لوگوں کا محض دعویٰ محبت اُنہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ شہادت میں وہ گراں قدر بصیرتیں موجود ہیں جن سے اُمتِ مرحومہ کے دلوں میں عزم و استقلال، صبرو ثبات، استبداد شکنی، قیامِ خلافت، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی روح پیدا ہوتی ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی کا مقصد ہی یہ تھاکہ میرے نانا کی اُمت اچھے اوصاف سے متصف ہوجائے مگر لوگوں نے اس عظیم الشان قربانی کا مضحکہ اُڑانا شروع کردیا اور تعزیوں کے جلوسوں کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عظمت کے لئے کافی سمجھ لیا اور ماتم کرنے، بال نوچنے، چھاتی پیٹنے ، بدن زخمی کرنے اور نوحہ اور بین کرنے کو اہل بیت کی محبت کا معیار قرا ردے دیا۔ ع بریں عقل و دانش بباید گریست
نوحہ کے بارے میں دربارِ نبوت کا حکم و عمل
اسلام میں خویش و اقارب اور گذشتہ بزرگوں پر ماتم و بین کرنا اور اس قسم کی حرکات کرنا جو