کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 44
وشادمانی کا دن باور کرانے کے لیے بہت ساری روایات گھڑ ڈالیں اور ایسی اکثر روایات حجاج بن یوسف کے زمانہ میں وضع کی گئیں ۔ ان میں سے چندایک مندرجہ ذیل ہیں : 1. جو شخص عاشورہ کے دن آنکھوں میں سرمہ لگائے گا، اس سال اس کی آنکھیں نہ دکھیں گی۔ 2. جس شخص نے اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے اور لباس میں فراخی کی، اللہ تعالیٰ اس پر سارا سال فراخی کرے گا۔ اس قسم کی تمام روایات وضعی ہیں ! شیخ ابن حجر رحمہ اللہ کا فتویٰ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ ما ثبت بالسنۃ میں شیخ ابن حجر رحمہ اللہ مفتی مکہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں : ’’بعض ائمہ حدیث وفقہ سے اس بارے میں دریافت کیا گیاکہ عاشورا کے دن سرمہ لگانا، غسل کرنا، مہندی لگانا، مختلف قسم کے کھانے پکانا، نئے کپڑے پہننا اور اُس دن خوشی کا اظہار کرنا کیسا ہے؟ سب نے متفقہ طور پر فتویٰ دیا کہ اس بارے میں کوئی صحیح حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کوئی روایت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ، نہ ائمہ اسلام نے ان چیزوں کو پسند کیا ہے اور نہ مستند کتب حدیث میں اس بارے میں کوئی صحیح یا ضعیف روایت موجود ہے۔‘‘ مروّجہ تعزیہ وغیرہ کی حقیقت اور شرعی حیثیت اس کے علاوہ محرم کے ابتدائی دس دنوں میں رونا پیٹنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، چھاتی پیٹنا، سربرہنہ پھرنا، غسل چھوڑ دینا، سیاہ کپڑے پہننا، بچوں کو سیاہ اور سبز کپڑے اور مَوْلی پہنانا، شہدا کے نام کی نذر ونیاز دینا، ماتم کی محفلیں قائم کرنا، جنگ نامے پڑھنا، ماتمی جلوس، تعزیہ، مہندی، گھوڑا وغیرہ سب بدعات ہیں جن کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں بلکہ صریح اُسوئہ حسنہ کے خلاف ہیں ۔ اُسوئہ حسنہ تو صرف یہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا یعنی نویں اور دسویں محرم کو روزہ رکھا جائے جس سے ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور بس! ہندوستان میں تعزیہ کب آیا؟ تعزیہ داری وغیرہ رسوم سے آٹھ سو سال تک ہندوستان بالکل پاک رہا۔ ۸۰۱ ہجری میں تیمور لنگ ترکستان کا بادشاہ جو نسلاً تاتاری اور مذہبا ً شیعہ تھا، اس نے پہلے پہل اس رسم کو ایجاد کیا اور ہندوستان میں پہلا تعزیہ ۹۶۲ہجری میں ہمایوں بادشاہ کی معرفت آیا۔ اس نے اپنے