کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 4
کل ہمیں انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے، اس لحاظ سے ہم یہاں اسی مناسبت سے چند بنیادی پہلووں کا تقابلی جائزہ پیش کریں گے:
اسلام کاتصور ِاہلیت اور مقصد ِحکومت
اسلام کا سیاسی نظریہ دراصل اللہ کی حاکمیت ِاعلیٰ کا مظہر اتم ہے۔ اللہ کی یہ حاکمیت ِمطلقہ ہمارے دستور کی طرح محض ایک لفظی عیاشی نہیں بلکہ ایک بڑی زمینی حقیقت کی حامل ہے جس سے اسلام کے نظامِ سیاست اور دیگر نظام ہاے سیاست میں بنیادی نوعیت کے فرق واقع ہوجاتے ہیں ۔ اللہ کی حاکمیت جس پر قرآن وسنت کی بے شمار آیات واحادیث شاہد ِعدل[1] ہیں ، اسلام کے سیاسی ڈھانچے کی ایک بالکل جداگانہ صورت گری پر منتج ہوتی ہے۔
اس کے باوجود ہمارے ہاں بعض لوگوں کے نزدیک اللہ کی حاکمیت یا اقتدارِ اعلیٰ کا محض لفظی اقرار کرلینا اور اسے سرفہرست درج کرلینا ہی کافی ہے جیساکہ ہمارے قانون دانوں یا اقتدار پر فائز طبقوں کا رویہ ہے۔ یا بعض دانشور اللہ کی اس حاکمیت کے نظریے کو بحیثیت ِمجموعی ’انسانوں کی خلافت‘ قرار دیتے ہوئے اُنہیں یہ حاکمیت منتقل کرکے اس مرکزی تصور سے گریزکی راہیں تلاش کرتے رہے ہیں جبکہ مذکورہ بالا دونوں طریقوں سے اسلام کے سیاسی نظریہ کی حقیقی روح مجروح ہوکر رہ جاتی ہے۔
اللہ کی حاکمیت سے مراد ایک طرف اللہ کی شریعت کی حاکمیت ِمطلقہ ہے، تودوسری طرف اس کا مدعا اس شریعت کے نفاذ کے لئے ایسے افراد کا مناصب ِحکومت پرسرفراز ہونا ہے جو اللہ کی حاکمیت اور شریعت کو نہ صرف اپنی ذات پر، بلکہ تمام انسانوں پر نافذکرنے کی کامل و اتم صلاحیت سے بہرہ ور ہوں ۔ اس سلسلے میں قرآنِ کریم کی زیر نظر آیت اساسی حیثیت رکھتی ہے جس سے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سیاست ِشرعیہ کے دو بنیادی اُصولوں کا استنباط کیا ہے، اور یہی اُصول دراصل اسلام کے نظامِ سیاست کا اصل الاصول اور بنیادی جوہر ہیں :
[1] ان آیات واحادیث کے مطالعے کے لئے دیکھئے ’اسلامی سیاست‘ از مولانا گوہر رحمن: ص ۲۲۰ تا ۲۶۷ اور جمہوری تصورِ حاکمیت کے لئے: ’اسلام کاطرزِحکومت‘ : محدث، جون ۲۰۰۰ء، ص ۴۸ تا ۵۵ جبکہ دونوں کے تقابلی مطالعہ کے لئے: خلافت وجمہوریت از مولانا عبد الرحمن کیلانی: ص ۲۲۵ تا ۲۳۰