کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 35
’’میرے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرنا۔‘‘ (سنن ترمذی:۳۶۶۲ ’صحیح‘)
چنانچہ اُمت نےاس شاندارموقف کوحرزِجان بنایا،اسےدل وجان سےقبول کرلیااور یہی ان کا تنہا ماخذ و مصدرتھا،جہاں سے وہ اپنے فیصلےکرواتےتھے۔
دور ِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشہور مصاحف
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں مصاحف ِعثمانیہ کے علاوہ کئی اور مصاحف بھی مشہور ہوئے، لیکن اُنہیں وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو مصاحف ِعثمانیہ کو حاصل ہوا، کیونکہ مصاحف ِعثمانیہ کیسب مشمولات اور قراء ات کے پیچھے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع اور اتفاقِ رائے موجود تھا۔ لہٰذا تمام بلادِ اسلامیہ میں صرف مصاحف ِعثمانیہ کو ہی قبول عام حاصل ہوسکا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دیگر تمام مصاحف انفرادی نوعیت کے تھے جنہیں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر تحریر کیا تھا۔ ان میں عرضۂ اَخیرہ کے ساتھ مطابقت کا لحاظ بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ ان میں شاذ قراء ات، منسوخ آیات اور قرآنی الفاظ کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے تفسیری اَقوال بھی شامل تھے جس کی وجہ سے لازماً یہ مصاحف، مصاحف ِعثمانیہ سے مختلف تھے۔بعض میں اضافہ جات تھے تو بعض میں کمی اور ان کی ترتیب بھی مصاحف ِعثمانیہ سے مختلف تھی۔ ان وجوہات کی بنا پر خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہی اپنے اجماع سے مصاحف ِعثمانیہ کے سوا دیگر تمام مصاحف کی قرآنی حیثیت کو کالعدم قرار دے دیا۔
بطورِ نمونہ ان مصاحف میں سے بعض مثالوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
1. مصحف ِعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
٭ اس میں سورۂ فاتحہ کی آیت نمبر۷یوں تحریر تھی: