کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 34
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق سواے بھلائی کی بات کے، کچھ نہ کہو۔ اللہ کی قسم !اُنہوں نے جو کچھ کیا، ہمارے مشورے سے کیا۔ اُنہوں نے ہم سے پوچھا تھا: ان قراء ات کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟ کیونکہ مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ کچھ لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ میری قراء ت تمہاری قراء ت سے زیادہ بہتر ہے، حالانکہ یہ بات کفر تک پہنچا سکتی ہے۔ ہم نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں تاکہ پھر کوئی افتراق اور اختلاف نہ ہو ۔ہم نے کہا :آپکی رائے بہت شاندار ہے۔‘‘
نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاتھا:
لو کنت الوالي وقت عثمان لفعلتُ في المصاحف مثل الذي فعل عثمان (تفسیر قرطبی: ۱/۵۴)
’’اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔‘‘
اور جن علاقوں میں یہ مصاحف بھیجے گئے تھے، وہاں کے باشندوں نے ان مصاحف کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان مصاحف کو ان کے ہاں اعلیٰ مقام اور مقدس حیثیت حاصل ہوگئی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان مصاحف کی تدوین کسی فردِ واحد کی کارروائی نہیں ہے، بلکہ ان کی پشت پر تمام اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اِجماع موجود ہے، جنہیں دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے مدح و توصیف کا وہ پروانہ عطا ہوا ہے جس کے وہ واقعی مستحق تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شان میں فرمایا تھا :
((علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیـین تمسَّکوا بہا وعضوا علیھا بالنواجذ)) (سنن ابو داؤد :۴۶۰۷)
’’میری اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کو تھام کر رکھنا، اور داڑھوں کی پوری قوت سے اس پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا۔‘‘
اور فرمایا : ((أصحابي کالنجوم بأیھم اقتدیتھم اھتدیتم))
’’میرے صحابہ رضی اللہ عنہم آسمان کے درخشندہ ستاروں کی مانند ہیں ۔ ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے ، راہ یاب ہوجاؤ گے۔‘‘
(تلخیص الحبیر: ۲۵۹۴ ’ضعیف‘)
اور فرمایا: ((اقتدوا بالذین من بعدي أبي بکر وعمر))