کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 33
تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے بعد ایک جماعت نے اپنے آپ کو قرآنِ کریم کی تعلیم کے لئے وقف کرلیا یہاں تک کہ وہ فن قراء ت کے امام بن گئے اور اس فن میں ان کی اقتدا اور ان سے اخذ ِعلم کیا جانے لگا۔اور ہر امام کے اہل علاقہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ صرف اِنہی ائمہ سے قراء ت لی جائے گی اور ان کی روایت پر اعتماد کیاجائے گا۔ اور یہیں سے قراء ت کا یہ علم ہمیشہ کے لئے ان ائمہ فن کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔اور تمام اُمت اس بات پر متفق ہو گئی کہ جو کچھ ان مصاحف میں ہے، وہ قرآن ہے اور ان کے علاوہ کسی بھی طرح کی کمی بیشی اور تقدیم و تاخیر کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ،کیونکہ اس کا قرآن ہونا اُمت کے نزدیک تواتر سے ثابت نہیں ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ پوری اُمت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتی!
ان مصاحف کے متعلق مسلمانوں کا موقف
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب عرضۂ اخیرہ کے مطابق قرآنِ کریم کے مصاحف تیار کرنے کا فیصلہ کیا تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے موقف کی حمایت کی اور ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے انفرادی صحیفے اور مصاحف نذرِ آتش کر دیئے اور مصاحف ِعثمانیہ پر متفق ہوگئے۔ شروع میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ اعتراض تھا کہ جمع قرآن کے سلسلہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مجھ پر ترجیح کیوں دی گئی ہے؟لیکن بعد میں جب ان پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہی اپنی بعض ممتاز خصوصیات کی وجہ سے اس کام کے لئے زیادہ موزوں تھے، تو اُنہوں نے اپنے موقف سے رجوع اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس کارنامے کا اعتراف کرلیا۔ اور بالآخر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس معاملہ پر اجماع ہوگیا۔ چنانچہ ابن ابی داؤد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا:
لاتقولوا في عثمان إلا خیرا، فوﷲ ما فعل الذي فعل في المصاحف إلا عن ملأ منا، قال : ما تقولون في ہذہ القراء ۃ ؟ فقد بلغني أن بعضہم یقول: إن قراء تي خیر من قراء تک، وہذا یکاد یکون کفرًا، قلنا: فما ترٰی؟ قال: أرٰی أن نجمع الناس علی مصحف واحد فلا تکون فرقۃ ولا اختلاف، قلنا: فنعم ما رأیت (فتح الباری:۹/۱۸)