کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 31
﴿وَسَارِعُوْا﴾ہے۔
٭ اسی طرح فرمانِ الٰہی ﴿وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ﴾(الشعرائ: ۲۱۷) بعض مصاحف میں واؤ کے ساتھ ﴿وَتَوَکَّلْ﴾ ہے اور بعض مصاحف میں ’ف‘ کے ساتھ ﴿فَتَوَکَّلْ﴾ہے۔
٭ اسی طرح اللہ کا فرمان ﴿وَفِیْھَا مَا تَشْتَھِیْہِ الأَنْفُسُ﴾(الزخرف:۷۱) بعض مصاحف میں ہاء کے ساتھ ﴿تَشْتَھِیْہِ﴾ سے اور بعض مصاحف میں بغیر ہاء کے ﴿تَشْتَھِیْ﴾ہے۔
٭ اور فرمانِ الٰہی ﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّ فَإِنَّ اﷲَ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ﴾(الحدید:۲۴) بعض مصاحف میں ھُوَ کے ساتھ ﴿ھُوَ الْغَنِيُّ﴾ہے اور بعض میں ھُوَ کے حذف کے ساتھ ہے، اسی طرح کی اور کئی مثالیں بھی موجود ہیں ۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ اگر مصاحف ِعثمانیہ ایک ہی لغت یعنی لغت ِقریش میں لکھے گئے ہوتے تو پھر اس اختلاف کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔اس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کسی حرف کو ختم نہیں کیا تھا ۔
اعتراض:یہاں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓنے مصحف کو مرتب کرنے والی جماعت کے تینوں قریشی اَراکین سے یہ فرمایا تھا:
’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شییٔ من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم‘‘ (صحیح بخاری: ۳۵۰۴ )
’’جب تمہارا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے قرآنِ کریم کے کسی لفظ کے متعلق اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا، کیونکہ قرآن اُن کی زبان میں نازل ہوا ہے۔‘‘
اور اس فرمان پر عمل بھی ہوا۔ اگرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ساتوں حروف باقی رکھے تھے تو ان کے اس فرمان کا کیا مطلب سمجھا جائے؟
جواب :اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کا یہ مطلب سمجھنا کہ اُنہوں نے چھ حروف کو ختم کر کے صرف حرف ِقریش کو باقی رکھا تھا ، سرا سر غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس ارشاد سے ان کا مطلب یہ تھا کہ قرآنِ کریم کی کتابت کے دوران اگر کہیں رسم الخط کے