کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 30
4. اوّل الذکررائے کے حاملین کا یہ دعویٰ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کاتبینِ قرآن کو صرف لغت قریش باقی رکھنے اور دیگر لغات کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا، اگر صحیح ہوتا تو اس کا لازمی تقاضا تھا کہ قرآنِ کریم قریش کے سوا دیگر لغات سے خالی ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں لغت ِقریش کے سوا دیگر لغات کے بھی بے شمار کلمات موجود ہیں ۔ قرآنِ کریم میں ان کلمات کا وجود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ مصاحف ِعثمانیہ میں صرف لغت ِقریش پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ حروفِ سبعہ کی وہ تمام جزئیات اُن میں موجود ہیں جو تواتر سے ثابت اور عرضۂ اخیرہ کے وقت برقرار رکھی گئی تھیں ۔
ذیل میں دیگر قبائل عرب کی لغات کے بعض کلمات کا بطورِ مثال تذکرہ کیا جاتاہے:
٭ ابوعبید سے روایت ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ نے ہم سے کہا کہ ہمیں ﴿اَلْاَرَائِکِ﴾ کامعنی معلوم نہیں تھا ،یہاں تک کہ یمن کے ایک آدمی سے ہماری ملاقات ہوئی، اُس نے ہمیں بتایا کہ ہمارے ہاں الأریکَۃ کا لفظ مسہری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
٭ فرمانِ الٰہی﴿کَلَّا لَا وَزَرَ﴾ کے بارے میں امام ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اس سے مراد یہ ہے کہ پناہ کے لئے اس دن کوئی پہاڑ نہیں ہو گا۔اور یہ یمن کے قبیلہ ’حمیر‘کی لغت میں ہے ۔‘‘
٭ اور ابوبکر انباری رحمہ اللہ نے ﴿ اَفَلَمْ یَیْاَسِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا﴾ کے متعلق عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’اس سے مراد اَفَلَمْ یَعْلَمُوْاہے اور یہ قبیلہ ہوازن کی زبان کا لفظ ہے۔‘‘
٭ اسی طرح ﴿لاَیَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًا﴾ کا معنی لایَنقُصُکم بیان ہوا ہے اور یہ قبیلہ عَبَس کی زبان کا لفظ ہے۔
5. نیز واضح دلائل سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مصاحف ِعثمانیہ کا باہم متعدد مقامات میں اختلاف تھا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَوَصّٰی بِھَا إبْرَاھِیْمُ﴾ (البقرۃ: ۱۳۲) بعض مصاحف میں تو ﴿وَوَصّٰی﴾واوین کے ساتھ ہے اور بعض مصاحف میں پہلی اور دوسری واؤ کے درمیان الف کے اضافہ سے ﴿ وَاَوْصٰی ﴾ہے۔
٭ اسی طرح ﴿وَسَارِعُوْا إلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾ (آلِ عمران: ۱۳۳)بعض مصاحف میں سین سے پہلے واؤ کے بغیر ﴿سَارِعُوْا﴾ ہے اور بعض میں واؤ کے حرف کے ساتھ