کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 3
لغزشیں ہیں جن کی بنا پر اسلامی ریاست بنانے اور اسلامی معاشرہ قائم کرنے کا خواب ابھی تک شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔
آمریت اور جبر واستبداد کو تو جدید دنیا کا اجتماعی ضمیر اب ردّ کرچکا ہے، اور میدانِ سیاست میں اسے جاہلیت کی ایک مذموم روایت سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل نہیں رہی، اور فی الوقت جمہوریت کو ایک بہترین اور مثالی طرزِ حکومت باور کیا جاتا ہے لیکن ہماری نظر میں جمہوریت یا ’سلطانی ٔ جمہور‘ سے صبح نو کی اُمید وابستہ کرلینا بھی ایک سراب سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں پاکستان کے مرکزی شہروں میں جمہوریت کے نام پر جوسیاسی نقشہ اور مستقبل کا منظر نامہ دکھائی دیتا ہے، وہ بھی ایک دردمند اور محب ِدین وملت فرد کو مزید رنج والم اورپریشانیوں کا شکار کردینے کے لئے کافی ہے۔
الحمد للہ پاکستان کے اکثریتی باشندے مسلمان ہیں اور قرآن وسنت ہی ہمارا سرمایۂ حیات ہے۔ قرآن وسنت پر ایمان اور اس کو زیر مطالعہ رکھنے والا مسلمان جس سیاسی ڈھانچے اور اجتماعی نظام سے مانوس ہوتا ہے، اس کی جانب کوئی سنجیدہ پیش قدمی دور دور تک پاکستان کے اسلامی معاشرے میں ناپید نظر آتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اسلام تو درکنار تحریک ِپاکستان کے نامور قائدین کے فرمودات کو بھی پوری قوم پسِ پشت ڈال چکی ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ مسلمان ایک بہترین سیاسی نظام کے حامل ہوتے ہوئے بھی اَغیار سے فکری بھیک مانگنے کا رویہ اپنانے پر قانع ہوئے بیٹھے ہیں ۔
ہمارے موجودہ سیاسی منظرنامے میں ہم کن پہلوؤں سے کوتاہی کا شکار ہیں ، اس کی نشاندہی کرنا اہل فکر ونظرکا فرض ہے ، تاکہ حق کا پیغام اور اللہ کی حجت پوری ہوتی رہے۔ جہاں تک عملی کوتاہی کا تعلق ہے تو اسے مجبوری اور اضطرار تک ہی محدود رہنا چاہئے۔ لیکن جب یہ عملی کوتاہی اعتقاد و نظریے کی شکل اختیار کرجائے تو پھر قوموں کی واپسی انتہائی مشکل ہوجایا کرتی ہے۔ ان حالات میں کتاب و سنت سے منور شدہ نظام کو ہی ہمیں پیش نظررکھنا ہوگا اور یہی ایک مسلمان کا سرمایۂ حیات ہے!
اسلام اور جمہوریت میں کئی پہلوؤں سے اساسی اور جوہری فرق پایا جاتاہے۔ چونکہ آج