کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 29
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت تھیں اور ان میں صرف وہی قراء ات اورآیات درج تھیں جو عرضۂ اخیرہ کے وقت باقی رکھی گئی تھیں اور ان کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی اور یہی صدیقی صحیفے ہی درحقیقت مصاحف ِعثمانیہ کی بنیاد اور مصدر تھے جن کو سامنے رکھ کر مصحف ِعثمانیہ کو مدوّن کیا گیا تھا۔ 2. اس کے برعکس کسی ایک صحیح یا ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کاتبینِ قرآن کو یہ حکم دیا ہو کہ وہ صرف ایک حرف پر اکتفا کریں اور باقی چھ حروف کو ترک کردیں ۔ 3. کوئی بھی مسلمان جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دین میں رسوخ اور کتاب اللہ کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قرآنِ کریم کو دنیوی و اُخروی سعادتوں کا محور سمجھنے کے عقیدہ سے واقف ہے، کبھی یہ تصور نہیں کرسکتاکہ اس وقت موجود ۱۲ ہزار سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اِن ’حروف‘ کے ختم کرنے پر تائید کی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں ۔ دورِ عثمان رضی اللہ عنہ میں جمع قرآن کے محرکات جو کچھ بھی تھے، لیکن اُمت ِمسلمہ کو متحد کرنے اور اُنہیں اختلاف سے بچانے کے لئے حضرت عثمان قرآنِ کریم میں سے کوئی چیز حذف نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی اُنہوں نے کی۔بلکہ اس صورتِ حال میں اُنہیں یہی کرنا چاہئے تھا کہ حروفِ سبعہ میں سے جو کچھ عرضۂ اخیرہ کے مطابق تواتر سے ثابت ہے ،اس کے لحاظ سے قرآنِ کریم کو لکھنے کا حکم دیتے۔ اور اُمت کو اس تواتر پر قائم رکھتے اور اُ نہیں بتاتے کہ ان کے علاوہ دیگر قراء ات شاذ ہیں جو شروع میں آسانی کی خاطر نازل ہوئی تھیں اور عرضۂ اخیرہ کے وقت اُنہیں منسوخ کردیا گیا تھا، لہٰذا اب نہ اُن کی قراء ت جائز ہے اور نہ ہی اُنہیں قرآن سمجھنا درست ہے۔ یہی وہ صحیح طریقہ تھا فتنہ کی بیخ کنی، اُمت ِمسلمہ کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور نزاع کو ختم کرنے کا اور اسی طریقہ کو ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا تھا اور اسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کی موافقت اور تائید کی تھی۔