کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 28
دوسرا موقف:جمہور علماے سلف و خلف کا ہے جو کہتے ہیں کہ مصاحف ِعثمانیہ سات حروف کی ان تمام جزئیات پر مشتمل تھے جن کا رسم عثمانی متحمل ہوسکتا تھا اور ان میں وہ تمام قراء ات موجود تھیں جو عرضۂ اخیرہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ آخری دَورِ قرآن) میں باقی رکھی گئی تھیں ۔کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ مصاحف ِعثمانیہ کا رسم نقطوں اور اِعراب سے خالی تھا تاکہ ان میں ساتوں حروف سما سکیں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ہر مصحف میں ساتوں حروف کی تمام تر جز ئیات جمع تھیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مصحف حروف ِسبعہ کی ان تمام جزئیات پر مشتمل تھا جو اس کے رسم میں سما سکتی تھیں ۔ باقی رہیں حروف سبعہ کی وہ جزئیات جو ایک رسم کے تحت نہ آسکیں ، اُنہیں ان چھ مصاحف میں تقسیم کردیا گیا تھا۔مثلاً ﴿وَوَصّٰی﴾ کی قراء ت مدنی اور شامی مصحف میں موجود نہیں ہے، لیکن باقی چاروں مصاحف میں موجود ہے۔ اسی طرح سورئہ توبہ کے آخر میں ﴿تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا﴾ صرف مکی مصحف میں موجود ہے، باقی میں ﴿تَجْرِیْ تَحْتَھَا﴾ہے۔ اسی طرح کچھ اور قراء ات بھی ہیں جو ایک رسم میں سما نہ سکنے کی وجہ سے بعض مصاحف ِعثمانی میں موجود ہیں ، بعض میں نہیں ہیں ۔ جبکہ﴿فَتَبَیَّنُوْا﴾ ﴿ھَیْتَ لَکَ﴾ اور﴿اُفٍّ﴾ جیسے الفاظ کا رسم چونکہ تمام قراء ات متواترہ کا متحمل ہے، لہٰذا اُنہیں لفظوں اور اعراب سے خالی رکھ کر تمام مصاحف میں جگہ دی گئی۔ اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ مجموعی طور پرتمام مصاحف ِعثمانیہ کو پیش نظر رکھیں تو آپ اُنہیں سبعہ احرف پر مشتمل پائیں گے اوریہی وہ صحیح مذہب ہے جس پر دل مطمئن ہوتا اور نظر ٹھہرتی ہے اور جس کی پشت پر قوی دلائل موجود ہیں ۔ ذیل میں ہم ان دلائل کا تذکرہ کریں گے : 1. مصاحف ِعثمانیہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صحیفوں کو سامنے رکھ کرتیارکئے گئے تھے اور علما کا اس بات پر اِجماع ہے کہ صدیقی صحیفوں میں سبعہ اَحرف کی وہ تمام جزئیات موجود تھیں جو