کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 27
عثمانیہ مشتمل تھے۔ اب زیر نظر سطورمیں یہ بتایا جائے گا کہ مصاحف ِعثمانیہ کس حالت میں تھے؟کیا ان میں ساتوں حروف جمع تھے جن پر قرآن کریم نازل ہوا تھا یا ان کی تدوین صرف ایک حرف پر ہوئی تھی اور باقی کو حذف کردیا گیا تھا؟ یہ وہ سوال ہے جس کے متعلق علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے : پہلا موقف:مصاحف ِعثمانیہ رضی اللہ عنہ میں سات حروف میں سے صرف قبیلہ قریش کا ایک حرف باقی رکھا گیا اور باقی چھ حروف ختم کر دیئے گئے تھے۔یہ لوگ اپنے موقف کی تائید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ (اصل میں قرآنِ کریم حرف ِقریش پر نازل کیا گیا تھا اور باقی) چھ حرف ابتداے اسلام میں اُمت کی آسانی اور ان سے مشقت دور کرنے کے لئے نازل کئے گئے تھے، کیونکہ آغازِ اسلام میں ہی تمام عرب قبائل (جن کے لہجات باہم مختلف تھے) کو ایک ایسی لغت کا پابند کردینا جس کی ان کی زبانیں عادی نہیں تھیں ، ان کے لئے کافی دقت اور مشقت کا باعث بن سکتا تھا۔بعد میں (جب تمام قبائلِ عرب،لغت ِقریش سے مانوس ہوگئے تو ) ان لغات اور حروف کی ضرورت باقی نہ رہی ۔چنانچہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ سات حروف اُمت ِمسلمہ کے درمیان افتراق و انتشار کا باعث بن رہے ہیں تو اُنہوں نے مصاحف میں کتابت شدہ ان حروف اور لغات میں سے صرف ایک لغت پر اکتفا کرنے کا حکم دیا کیونکہ قرآنِ کریم اصل میں اسی لغت پر نازل ہوا تھا۔ اورباقی حروف ابتداے اسلام میں آسانی کے پیش نظر نازل ہوئے تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے جمع قرآن پر مامور کمیٹی کو یہ ہدایت کردی : إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نَـزَل بلسانھم (صحیح بخاری : ۳۵۰۶) ’’جب قرآن کے کسی حصے میں تمہارا زیدبن ثابت سے اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا، کیونکہ یہ ان کی زبان میں نازل ہوا ہے۔‘‘