کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 25
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تدوین قرآن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ 1. اسے مختلف پارچوں سے نقل کرکے ایک جگہ (کاغذ) پریکجا کیا گیا۔ 2. یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا (سورتیں مرتب نہیں تھیں )۔ اورہر سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی۔ 3. اور صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوا تھا۔ (اور وہ آیات اور حروف نکال دیے گئے جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی۔) 4. دورِ صدیقی میں قرآنِ کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا، کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم کی وفات سے قرآنِ مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے۔(نیز قرآنِ مجید کا ایک ایسا نسخہ تیار ہو جائے جس پر تمام اُمت کا اتفاق ہو ۔) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں تدوین قرآن دورِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں تدوینِ قرآن کی صورت یہ تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ صحیفوں سے نقل کر کے (تمام سورتوں کو ترتیب کے ساتھ ایک مصحف میں لکھا گیا اور پھر اس نئے مرتب مصحف سے مزید) مصاحف تیار کئے گئے اوراُنہیں مختلف بلا دِ اسلامیہ میں بھیج دیا گیا۔ ان مصاحف کی تدوین کا مقصد اُمت ِ مسلمہ میں وحدت و یگانگت پیدا کرنا اور اس فتنہ کی سرکوبی تھا جو مسلمانوں کی صفوں میں قراء ات کے اختلاف کی وجہ سے سراُٹھا رہا تھاتاکہ مسلمانوں کو ان ثابت اور متواتر قراء ات پر جمع کیا جا سکے تھا جن پر یہ مصاحف ِعثمانیہ مشتمل تھے،البتہ ان میں وہ وجوہِ قراء ات شامل نہیں تھیں جو آغازِ اسلام میں آسانی کی خاطر نازل ہوئی تھیں پھر عرضۂ اخیرہ میں انہیں منسوخ کردیا گیا تھا۔چنانچہ قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لم یقصد عثمان قصد أبي بکر في نفس جمع القرآن بین لوحین،وإنما قصد جمْعَہم علی القراء ات الثابتۃ المعروفۃ عن النبي ! وإلغاء ما لیس کذلک،وأخذھم بمصحف لا تقدیم فیہ ولاتأخیر،ولا تأویل