کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 23
تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ اگر اس بنا پر تمام اچھے اور اہل افراد اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو لازماً اس سے خیر کی فضا پیدا ہوگی۔ جماعتیں اَفراد سے ہی تشکیل پاتی ہیں اور اچھا فرد خوشبو کی طرح ہر جگہ کچھ نہ کچھ خیر کو پھیلانے کا سبب بن ہی جاتا ہے۔
یوں تو موقف مستقل دلائل اور بحث مباحثہ کا متقاضی ہے لیکن دورِحاضر کے تین عظیم سلفی علما کا موقف ذکر کرکے مکمل بحث جو محدث میں شائع ہوچکی ہے، کی طرف اشارہ کرنا کافی ہوگا:
٭ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ’اسمبلی کی رکنیت اور ووٹنگ کی شرعی حیثیت‘ پر فتوی دیتے ہوئے فرمایا:
’’فرمانِ نبوی ہے : اعما ل کا دارو مدار نیتوں پر ہے، اور ہر آدمی کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔ پارلیمنٹ میں جانے کا مقصد اگر تائید ِحق اور انکارِ باطل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کے ذریعے داعیانِ الی اللہ کے ساتھ وابستگی اور امدادِ حق ممکن ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ووٹنگ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جس سے نیک داعیوں کے انتخاب اور حق واہل حق کی تائید ہوتی ہے۔‘‘ (معوقات تطبیق الشریعۃ از شیخ مناع القطان: ص ۱۶۶)
٭ شیخ محمد صالح عثیمین رحمہ اللہ سے بھی جب ایسا سوال پوچھا گیا تو اُنہوں نے فتویٰ دیا:
اُدخلوہا أتترکونہا للعلمانیین والفسقۃ؟ ’’ اسمبلیوں میں پہنچنے کی کوشش کرو، کیا تم انہیں لادین اور فاسق لوگوں کے لئے چھوڑدینا چاہتے ہو؟ ‘‘
٭ الجزائر کے ’سالویشن فرنٹ‘ کے سوالات کے جواب میں شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا فتویٰ یہ تھا:
’’میں نہیں سمجھتا کہ مسلم عوام کوووٹنگ سے باز رہنا چاہئے جبکہ اُمیدواروں میں اسلام دشمن بھی ہوں اور مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دین دار بھی۔ ایسی صورتحال میں ہر مسلمان کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ صرف دیندار لوگوں کو منتخب کرے جو صحیح راستے کے زیادہ قریب ہوں ۔‘‘
(عربی مجلہ الإصالۃ، اُردن: شمارہ۴/ص ۲۰)
ان علما کرام کے فتاویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ کم از کم دفعِ ضرر اور شرکے خاتمے کی ادنیٰ سی کوشش جاری رہنی چاہئے۔ بہر حال یہ دورِ اضطرار کے فتاویٰ ہیں ، جن پر اکتفا کرلینے کی بجائے اصل نظام خلافت وامارت کی قیام کی کوششیں کرنا ہمارا ملی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے سے عہدہ برا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ جب تک ہم اسلام کو زندگی کے تمام پہلوؤں میں نافذ نہیں کرتے، خیر وفلاح کی اُمیداور توقع رکھنا عبث ہے! واللہ اعلم (حسن مدنی)