کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 22
اشتراک ڈھونڈا جائے، اگرچہ ان میں بھی کئی ظاہری مماثلتیں ضرور مل جاتی ہیں جبکہ دونوں کی حقیقت اور حیثیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسلام کا یہ سیاسی تصور بالکل واضح ہے کہ ا س میں عوام الناس اپنے نمائندے ہرگز منتخب نہیں کرتے بلکہ مناصب کا تعین ولاۃِ امر کا حق ہے۔ لیکن چونکہ موجودہ نظامِ کفر میں اس ذمہ داری کی مسلمانوں کے ذمہ داران کی بجائے عوام الناس سے توقع رکھی جاتی ہے، اس لئے عوام کم از کم اہلیت ِشرعی کے اس وصف کو ضرور ملحوظ رکھیں جس کا تقاضا ولاۃ الامر سے شریعت مطہرہ نے کیا ہے۔ اگر وہ جمہوریت کے کفر ہونے کی بنا پر انتخاب کے عمل سے لاتعلق ہوجاتے ہیں تو اس کا نتیجہ نااہل افراد کے قوم کے سر پر مزید تسلط کی صورت میں نمودار ہوگا، جس رویہ کی مذمت اور مخالفت عالم اسلام کے کبار علما نے بھی کی ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ جمہوریت کے اُصولِ خمسہ میں حاکمیت ِعوام اور سیکولرزم کی طرح جماعت سازی کا فتنہ بھی مستقل اُصول کی شکل میں موجود ہے۔ لیکن اسلام میں جماعت بازی کے اس تصور کی بھی کوئی حمایت نہیں پائی جاتی جہاں حق کی تائید کی بجائے جماعتی موقف کی پابندی لازمی ٹھہرتی ہو۔ اسلام تو ہمیں حق بات اور عدل وانصاف کی تائید کا پابند کرتا ہے، چاہے وہ اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یوں بھی جماعتی سیاست بازی کے نتائج قوم اچھی طرح بھگت چکی ہے جہاں کئی ایل ایف او جیسے معاملوں کو جماعتی مصلحت کے تابع پورا کرنا ضروری ٹھہرتا ہے اور ذاتی مفاد کی بنا پر اللہ کے قانون کی کھلے عام توہین کے باوجود جماعتی موقف کی بنا پر دین کے نام پر منتخب ہونے والے استعفوں سے دامن کش رہتے ہیں ۔ اس جماعتی سیاست بازی کا ہی نتیجہ ہے کہ بعض طالع آزما سیاستدان اپنے وفادار ساتھیوں کو تو مختلف حلقوں کے ٹکٹ سے نواز دیتے ہیں جبکہ اہل افراد ان کی چاپلوسی نہ کرنے کی وجہ سے محروم ٹھہرتے ہیں ۔ ان متعدد وجوہات کی بنا پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لوگوں کو ان کی انفرادی اہلیت کی بنا پر یہ امانت [1]سپرد کی جائے جو اسلام کے تصورِ اہلیت کے قریب تر ہوں ، چاہے ان کا
[1] مزید تفصیل کیلئے محدث میں شائع شدہ تفصیلی فتویٰ اور مضمون بعنوان: ’پارلیمنٹ کی رکنیت اور سرکاری عہدے‘ ( جنوری ۱۹۹۷ء ص۴۸ تا ۹۹) اور محدث بابت ستمبر، اکتوبر ۱۹۸۱ء وغیرہ