کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 21
عوام پر جبر کی بجائے ان کی فلاح اور ان کی مشاورت کو ایک خاص وقعت حاصل ہے اور دونوں میں عوام کے اعتماد کا عنصر ملحوظ رکھا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت کی اسلام سے یہ چند مماثلتیں محض ظاہری ہیں ۔ اگر باریک بینی سے عوامی نمائندگی، اعتماد اور قومی فلاح کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اسلام میں ان کی روح کارفرما نظر آتی ہے جبکہ جمہوریت میں یہ محض نعرے سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتیں ۔ البتہ جہاں تک اختلافات کا تعلق ہے تو اسلام اور جمہوریت کے ہر ہر سیاسی تصورمیں غیرمعمولی حد تک فرق پایا جاتاہے! ’اسلامی نظامِ سیاست‘ کا نفاذ کس طرح؟ اسلام کے سیاسی تصورات علم وتحقیق کا ایک طویل باب ہیں جو اپنے وسیع دائرئہ عمل کی طرح کافی گہرائی اور گیرائی کا حامل ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ نظام کس طرح مسلم ممالک میں نافذ ہوسکتا ہے، جب کہ عملاً اس وقت دنیا میں یہ نظام کہیں بھی زیر عمل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ امر تو ملحوظ رہنا چاہئے کہ اسلام کا نظامِ خلافت نہ صرف کئی صدیاں قبل انسانیت کو سکون واطمینان اور ترقی وفلاح کی ایسی منازل سے متعارف کرا چکا ہے جس کی مثالیں دنیا کے کسی دوسرے نظام نے آج تک پیش نہیں کیں ۔ دوسری طرف یہ نظام کسی نہ کسی شکل میں اُمت ِمسلمہ میں ۱۳ صدیاں زیر عمل رہا ہے۔ یہ دونوں خصوصیات دنیا میں کسی دوسرے نظامِ سیاست کو حاصل نہیں ہیں ۔ ان دو عملی خصوصیات کے بعد اس نظام کی افادیت اور کامیابی کے بارے میں سوال پیدا کرنا تو ایک نادانی اور حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔ یوں بھی مسلمان ہونے کے ناطے اس نظامِ سیاست کے اعلیٰ واَمثل ہونے میں کوئی کلام کرنا ہمارے اعتقاد وایمان کے ہی خلاف ہے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی کمی ہے تو وہ ہم مسلمانوں کے طرزِ عمل میں ہے۔ چونکہ یہ ایک تفصیلی عملی موضوع ہے، اسلئے فی الحال ہم اس بحث کو آئندہ شماروں تک ملتوی کرتے ہیں ،موجودہ بحث صرف تصورونظریہ تک محدود ہے۔ پس چہ باید کرد؟ قوم کو درپیش انتخاب کے اس مرحلے میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں پہلے توبصیرت پر مبنی ہمارا یہ موقف واضح رہنا چاہئے کہ جمہوریت ایک غیراسلامی نظام ہے جو ہر ہر پہلو کے اعتبار سے اپنے مخصوص نظریات کا پرتو ہے۔ اسلام اور جمہوریت میں مشترک قدریں تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی حیوان اور انسان میں