کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 20
کریں گے، وہی خلیفہ ہوگا۔ شوریٰ تو صرف مہاجرین وانصار(سابقین)کیلئے ہے۔ اگر اُنہوں نے کسی کو امام قرار دینے پر اتفاق کرلیا تویہ اللہ اور پوری اُمت کی رضامندی کیلئے کافی ہے۔ سو ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔ ‘‘ (الإمامۃ والسیاسۃلابن قتیبۃ : ۱/۴۱)
ایسے ہی جب حضرت عمر بن عبد العزیز کو خلیفہ نامزد کیا گیا تو اُنہوں نے وراثت میں ملی ہوئی اس امارت کو اہل حل وعقد کے سامنے پیش کردیا کہ تم جس کو چاہو خلیفہ بنا لو کیونکہ یہ تمہارا ہی حق ہے۔ اُن لوگوں نے آ پ کے غیرمعمولی کردار اور علم کی بنا پر آپ کی ہی خلافت پر اتفاق کا اظہار کیا۔ (بحوالہ محدث: اکتوبر ۱۹۹۲ء ، ص ۹)
ہمارے ہاں عوام الناس کے حق انتخاب کے لئے عموماً ووٹ اور بیعت کے تصور کو خوب گڈ مڈ کیا جاتا اور اس سے عوامی انتخاب پر استدلال کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ ووٹ اور بیعت کو مترادف باور کراتے ہیں جب کہ ان دونوں کے طریقۂ کار، مقام وحیثیت اور مقصد ومطلب سے تھوڑی سی آشنائی رکھنے والا شخص بھی دونوں کو مترادف نہیں سمجھ سکتا، مثال کے طورپر
٭ اسلام میں کسی عہدے کا تعین ووٹ کی بجائے اہل شوریٰ یا ذمہ دار افراد کے ذریعے ہوتا ہے جس کی تصدیق وتصویب عامۃ المسلمین بیعت کے ذریعے کرتے ہیں ۔جبکہ دوسری طرف جمہوریت میں ووٹ کا بنیادی وظیفہ ہی کسی فرد کو عہدے کے لئے منتخب کرنا ہوتا ہے۔
٭ ووٹ کے ذریعے ایک عام شخص اپنا حق حاکمیت استعمال کرتا ہے، جب کہ بیعت کے ذریعے ایک عام مسلمان اپنے امیر کی اطاعت کا عہد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹ عہدہ کے حصول سے پہلے ہوتا ہے اور بیعت عہدہ کے حصول کے بعدہوتی ہے۔
٭ پھرموجودہ پارلیمانی جمہوریت میں ووٹ بنیادی نمائندگان کے انتخاب کے لئے ہوتا ہے، جبکہ بیعت صرف اور صرف خلیفہ المسلمین کے لئے ہوتی ہے۔
٭ بیعت ایک مبارک شرعی تصوراورمسنون عمل ہے جس میں خلیفہ سے اطاعت کے بدلے جنت کا معاہدہ کیا جاتا ہے جبکہ ووٹ ایک خالصتاً مفاد پرستانہ دنیاوی تعلق ہے۔
اس امر سے انکار نہیں کہ اسلام اور جمہوریت میں چند ایک جزوی مماثلتیں پائی جاتی ہیں ، لیکن ان مماثلتوں کا تناسب انتہائی محدود ہے۔ مثلاً دوسرے سیاسی نظاموں کی بہ نسبت دونوں میں