کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 19
کومنتخب نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اگر یہ لوگ اقتدار میں آگئے تو سہولتوں اور منفعتوں کی بجائے ہمیں بھی شریعت کی پابندی کرائیں گے۔ اور انسان سہولت پسندی کے باعث کسی بھی پابندی سے گھبراتا ہے، اس لئے اہل دین کی بجائے اپنا ووٹ بھی ان لوگوں کو دینے کو ترجیح دیتا ہے جس کا حوالہ دے کر بعد میں اپنا کوئی کام نکالا جاسکے۔ اسلام کا تصورِ انتخاب اسلامی معاشرہ ایک ذمہ دار معاشرہ ہے جس میں اسلام کی تعلیمات کو اگر اپنی روح کے ساتھ رو بہ عمل لایا جائے تو مسلمانوں میں باہمی خیروصلاح اور محبت ومودّت کے ساتھ خدمت وقربانی کرنے والے کئی افراد اَز خود نمایاں ہوجاتے ہیں ، جیساکہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے ہی ہوا تھا لیکن ایسے قیمتی افراد کے انتخاب کی اہلیت سے عوام الناس باخبر ہونے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہوتے بلکہ عوام الناس کی نظر الٰہی مقاصد کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کی اسیر یا انہی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسے اہل حل وعقدیا اصحابِ شوریٰ کسی انتخاب یا اُمیدواری یا سیاسی مہم جوئی کے نتیجے میں منتخب نہیں ہوتے جیسا کہ خیرالقرون اس قسم کے شور وشغب سے بالکل خالی نظر آتے ہیں بلکہ ان کا واحد طرئہ امتیاز ان کا عمل اور ماضی کا خدمت سے بھرپور شاندار ریکارڈ ہوتا ہے۔ ان کا ماضی ہی ان کے موزوں انتخاب کی اہلیت ٹھہرتا ہے، جو مستقبل میں ان کے متوقع ذمہ دارانہ کردار کی ضمانت ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو مسلمانوں کے امیر کے لئے آنکھ اور کان کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ پھر مسلمانوں کا امیرجو دراصل اپنی حکومت کی بجائے اللہ کی شریعت نافذ کرنے کے لئے اس عہدے پر فائز ہوتا ہے، دیگر عہدیداروں کا تعین کرتا ہے۔ اسلامی ذخیرئہ علم سے ایسے بے شمار دلائل دیے جاسکتے ہیں جس میں مناصب پر تعیناتی کو جملہ مسلمانوں کے حق کی بجائے ان ذمہ داروں کا فرض قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب چند لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھے ہوکر ان سے خلافت قبول کرنے کی درخواست کی توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ’’یہ معاملہ تمہارے فیصلہ کرنے کا نہیں ، یہ تو اہل شوریٰ اوراہل بدر کا کام ہے۔ جس کو وہ پسند