کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 18
’’امارت کا مطالبہ نہ کرو۔ اگر تمہیں یہ منصب بلاخواہش کے مل جائے تو تمہاری اللہ کی طرف سے مدد کی جائے گی، اور اگر تم اپنی خواہش سے منصب پر فائز ہوتے ہو تو اس کے نتائج کی تمامتر ذمہ داری تم پرڈال دی جاتی ہے۔ ‘‘ ایسے ہی آج کے دور میں ذاتی قرابت داری یا ذاتی پسند و ناپسند اور مفادات کی بنا پر اکثر وبیشتر مناصب کو تقسیم کیا جاتا ہے، جبکہ اسلام کی نظر میں موزوں ترین اہلیت کو نظر انداز کرکے ایسا کرناصریحاً ناجائز ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ من وُلِّيَ من أمر المسلمین شیئًا فولّٰی رجلا لِمَودۃ أو قرابۃ بینہا فقد خان ﷲ ورسولہ والمسلمین (فتاویٰ: ۶/۲۶۹) ’’جسے مسلمانوں کے اجتماعی معاملہ کا اختیار ملااور اس نے دوسرے شخص کو ذاتی محبت یا قرابت داری کی بنا پر یہ ذمہ داری سونپ دی تو ایسا شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت کا سزاوار ہے۔ ‘‘ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’پس اگر والی جادئہ استقامت سے ہٹ گیا، یا زیادہ حق دار اوراَصلح کو چھوڑ کر کسی قرابت، وَلاء و عتاقہ، دوستی یا کسی آبادی میں اپنائیت اور موافقت کی بنا پر، یا مسلکی موافقت یا کسی اور وجہ کی بنا پر، یا باہم ایک جنس ہونے مثلاً ایرانی، ترکی، رومی ہونے کی وجہ سے یا رشوت یا کسی دوسری منفعت کی وجہ سے ، یا کسی بھی دیگر ایسے اسباب کی بنا پر … یا حق دار سے ذاتی کینہ وعداوت کی بنا پر، اس نے حق دار ومستحق اَصلح شخص کو چھوڑ کر غیر مستحق، غیراصلح کو منصب پر مقرر کیا تووہ یقینا اللہ، اس کے رسول اور عام مسلمانوں سے خیانت کا مرتکب ہوا، جس سے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی اس آیت میں واضح طورپر منع کیا ہے: ﴿یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَخُوْنُوْا اﷲَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْا اَمَانٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾(الانفال:۲۷ ) ’’مسلمانو! اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کا ارتکاب ہرگز نہ کرو اور نہ ہی اپنی امانتوں میں خیانت کرو، تم اس کے وبال سے خوب واقف ہو۔‘‘ (سیاست ِشرعیہ مترجم: ص ۸۸) الغرض اسلام کا تصورِ اہلیت ایسا قابل عمل نظام ہے جس میں شریعت ِاسلامیہ کے نفاذ اور اجتماع کے برتر مفادپورے ہونے کے امکان زیادہ قوی ہوتے ہیں اور یہ جمہوریت کے تصورِ اہلیت کے عین برعکس ہے جو صرف عوام کے ذاتی مفادات کے گردگھومتا ہے۔اور اہل دین