کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 17
٭ اسلام میں چونکہ حاکمیت عوام کا حق نہیں ہے، بلکہ اللہ وحدہ لاشریک کا حق ہے، اس بنا پر یہاں جمہوریت کے عین برعکس یہ تصور بھی موجود ہے کہ خلافت کے لئے طریقۂ انتخاب زیادہ اہم ہونے کی بجائے خلیفہ کا حاکمیت ِالٰہیہ کے مقاصد سے ہم آہنگ ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف جمہوریت میں سلطانی ٔجمہور کے نام پر اساسی حیثیت طریقۂ انتخاب کو ہی حاصل ہے، اس کے بعد عملاً حکومت کے پورے پانچ برس ’عوام کی حاکمیت‘ کے نظریے کا تمسخر ہی اُڑایا جاتا ہے۔جمہوریت کانظریہ حاکمیت عوام کا اظہار محض مرحلۂ انتخاب کے وقت ہوتا ہے جبکہ اسلام میں حاکمیت ِالٰہ کا اظہار دورانِ حکومت لگاتار ہوتا رہتا ہے۔ اسلام میں منصب کے لئے مروّجہ مناسبتوں کی نفی اسلام کی رو سے کسی منصب کے لئے معتبر اہلیت صرف وہی ہے جس کا شریعت ِمطہرہ نے اعتبار کیا ہے۔ جہاں تک جمہوری نظام کی متعارف کردہ مختلف اہلیتوں کا تعلق ہے تو اسلام نے بڑی شدت سے ان اہلیتوں کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ذاتی منفعت کے لئے منصب کی اُمیدواری اصلاً حرام ہے، کیونکہ اس میں اُمیدوار کے پیش نظر ذاتی مفاد ہوتا ہے، جیسا کہ مختلف احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ إن قومًا دخلوا علیہ سألوہ ولایۃً فقال: ((إنا لا نولِّي أمرنا ہذا مَن طلبہ)) ’’بعض افراد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مناصب کا تقاضا کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم مسلمان ان لوگوں کواپنی ذمہ داریاں نہیں سونپتے جوان کے طلب گار ہوں ۔‘‘ (صحیح مسلم: ۳۴۰۲ وغیرہ) اس نوعیت کے متعدد فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملحوظ رکھتے ہوئے بآسانی یہ کہا جاسکتاہے کہ کسی فرد کا ایک منصب کی خواہش کرنا ہی اس کی نا اہلی کی دلیل ہے کیونکہ شریعت نے صراحت کے ساتھ اس اُمیدواری اور طلب ِجاہ سے منع کردیا ہے۔ یہ طلب گاری اور خواہش مندی محض کوئی ظاہری مطالبہ نہیں بلکہ ایک فرد کی ذاتی وارداتِ قلبی ہے جس کے دور رَس نتائج اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان ہوئے ہیں ، جو آپ نے ایک صحابی (ابوذرّ غفاری رضی اللہ عنہ ) کو مخاطب کرتا ہوئے فرمایا تھا : ((لاتسئل الإمارۃ فإنک إن أعطیتَہا من غیر مسئلۃ أُعنتَ علیہا وإن أعطیتَہا عن مسئلۃ وُکِّلتَ إلیہا)) (صحیح بخاری:۶۷۲۲)