کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 16
یاد رہے کہ اللہ کی حاکمیت ِمطلقہ میں انسان تو کجا، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک نہیں ۔ قرآن کی رو سے کسی نبی کو روا نہیں کہ وہ لوگوں کو اللہ کی بجائے اپنی طرف دعوت دے بلکہ نبی کی بات کو بہ تسلیم ورضا قبول کرنے کی وجہ بھی اس بات کے من جانب اللہ ہونے میں پوشیدہ ہے، کیونکہ نبی کا تعین اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اور وہ اللہ کی وحی کو ہی اپنی زبان سے ادا کرتا ہے، اس لئے اُس کی ہر بات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
تصورِ حاکمیت کی اس ثنویت کے ساتھ یہ اَمر مزید حیرانگی کا باعث ہے کہ جب بعض متحرک دینی جماعتیں ایک طرف توسیکولرزم کے اَثرات سے ملک کو بچانے کے لئے غیرمعمولی جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں تودوسری طرف اس جمہوری طرزِ سیاست کی بھی علم بردار نظر آتی ہیں جس کا دوسرا اساسی اُصول ’سیکولرزم‘ ہے۔
جمہوریت کو اسلامی بنانے اور کہنے کا تصور ایک سراب سے زیادہ نہیں کیونکہ ہرنظام اپنی وضع قطع اور ساخت وپرداخت میں اپنے اساسی نظریات ومعتقدات کا یقینی مظہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ جمہوریت کا تصورِ اہلیت اور اسلام کا تصورِ اہلیت دو بالکل متضاد تصور ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے لئے ہر دو نظاموں میں بالکل جداگانہ میکانزم اختیا رکیا گیا ہے۔ غیراسلامی نظاموں کو اسلامی لیبل لگادینے سے کوئی نظام ہرگز اسلامی نہیں بن سکتا !!
٭ اسلام کی رو سے اجتماعی میدان میں مقاصد ِشرع کی تکمیل ایسا برتر مقصد ہے جو اگر فاجر سلطان سے بھی پورا ہوتا ہو تو ایسے امیر کو اس دوسرے حکمران پر ترجیح دی جائے گی جو ذاتی طورپر تو نیک وپرہیز گار ہے،لیکن مقاصد ِشرع کی تکمیل کی صلاحیت ِتامہ سے محروم ہے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب ایسے دو اشخاص کی بابت یہ پوچھا گیا کہ کس کو ترجیح دی جائے؟ تو اُنہوں نے یہ دانش مندانہ موقف پیش کیا کہ
’’اجتماعی مصالح کی بہتر تکمیل کے لئے ایسے فاجر امیر کا انتخاب زیادہ موزوں ہے، بجائے ایسے متقی شخص کے جو اجتماعی مصالح کی صلاحیت نہیں رکھتا۔کیونکہ فاجر کا فجور اس کی ذات کے لئے ، جبکہ اس کا عامۃ المسلمین کے لئے مفید ہوناعوام کے لئے نفع بخش ہے۔برخلاف ایسے شخص کہ جو ذاتی طورپر تو متقی ہے، لیکن عوام میں دین وشریعت کے نفاذ اور دیگر مقاصد کو پورا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔‘‘ مُلخَّصًا