کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 15
طبقہ ہے، نہ ہی پاپائیت کی طرح اُنہیں عام شخص سے کوئی امتیاز حاصل ہے اور نہ اس کے لئے کوئی خصوصی احکامات ہیں ۔ البتہ اسلام ایک خاص طبقہ کی بجائے ایک مخصوص علمی اہلیت اور ایک عملی کیفیت (تقویٰ) کا تقاضا ضرور کرتا ہے جو اللہ کی شریعت کو سمجھنے، پھر اسے اپنے اور دوسروں پر نافذ کرنے کے لئے ضروری ہے۔ غرض خلافت درحقیقت اللہ کی حاکمیت (شریعت کی حاکمیت) کا نام ہے، جس شریعت کی خلیفہ بھی مخالفت کرے تو وہ مستوجب ِسزا ٹھہرتا ہے۔ دیکھئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق کا خطبہ خلافت الغرض اسلام کا نظریۂ اہلیت، اس کے تصور ِاقتدارِ اعلیٰ سے جڑا ہوا ہے۔ اللہ کی ذات حاکم اعلیٰ ہے تو اس کی شریعت کو اُس کے الفاظ ومراد کی بنا پر دنیا میں نافذ کرنا اسلام کا مقصد ِاصلی ہے۔ اور جو لو گ اس شریعت پر عمل پیرا اور اس کے حامل ہیں ، وہ لوگ معاشرے میں مزید ذمہ داروں کو متعین کرکے معاشرے کا رخ اسلامی مقاصد کی طرف موڑنے کے ذمہ دار ہیں ۔ ’اسلامی جمہوریت‘ کیونکر؟ جمہوریت جہاں ایک طرف عوام کی حاکمیت کی دعویدار ہے، وہاں ا س بنیادی نعرے کے بعد اس کا دوسرا بنیادی اُصول اللہ کی حاکمیت کا انکا ر یعنی سیکولرزم (مذہب بیزاری) بھی ہے۔گویا ایک طرف جمہوریت عوام کی حاکمیت کی داعی ہے تو اس کے ساتھ ہی مذہب کی حاکمیت یا عمل داری کی شدید مخالف بھی ہے۔ اور اپنے اس موقف میں بڑی واضح ہے لیکن ہمارے ہاں بعض دانشوروں کا نظریۂ خلافت عجب ثنویت کا شکار ہے۔ ایک طرف تو وہ اللہ کے لئے اقتدارِ اعلیٰ کا تصور رکھتے ہیں توساتھ ہی وہ یہ اقتدارِ اعلیٰ انسان کو بحیثیت ِمجموعی منتقل کردیتے ہیں کہ ’’عام مسلمان خلیفہ ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنی خلافت ایک شخص میں مرکوز کرتے اور اسے تفویض کرتے ہیں ۔‘‘ ایسے لوگوں کا یہ رویہ اسلام کے نام پر دراصل جمہوری تصورات کی عمل داری کا ہے جس کو اسلام کا مجموعی مزاج کسی طرح قبول نہیں کرتا اور کتاب وسنت میں ا س کے خلاف کئی ایک دلائل موجود ہیں ۔ ایسی اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت میں صرف اتنا فرق ہے کہ وہاں یہ حاکمیت تمام انسانوں کو حاصل ہوتی ہے اور یہاں تمام مسلمانوں کو ۔