کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 14
دلائل ہوتے ہیں ۔البتہ ذوقی یا احتمالی دلائل میں صاحب ِامر کو ایک رائے کو ترجیح دینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔گویا اسلامی شورائیت کئی ’متوازی حاکمیتوں کے اشتراک‘ کی بجائے اللہ کی حاکمیت کے قریب ترین ہوتی ہے اور اس کے اراکین بھی ماہر شریعت ہوتے ہیں ، جیسا کہ خیرالقرون کی شوریٰ کے اراکین کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ٭ اسلام میں رائے عامہ کسی منصب کے لئے فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتی بلکہ ارکانِ شوریٰ یا ولاۃ الامر مختلف ذمہ داریوں کے لئے اَفراد کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کا انتخاب تو ان کے ذاتی مقاصد یا ظاہر ی نعروں کے تابع ہوتا ہے جس کے دھوکے میں وہ آجاتے ہیں ۔ جبکہ اسلام کا بنیادی مقصد معاشرے پر اللہ کی حاکمیت یعنی شریعت ِاسلامیہ کا نفاذ ہے، اس لئے وہاں ایسے ہی لوگ الٰہی مقاصد کی تکمیل کی غرض سے مختلف لوگوں کی اہلیت کے مطابق ان کو ذمہ داریاں سونپتے ہیں ۔ ٭ علاوہ ازیں جمہوریت میں چونکہ مناصب بظاہر تمام عوام کا استحقاق ہیں ، اس بنا پر ہر منصب کے لئے ایک مخصوص وقت مقرر ہے، تاکہ بعد میں یہ منصب دوسرے لوگوں کو بھی حاصل ہوسکے۔ جبکہ اسلام کی رو سے منصب کا اصل رخ اللہ کے دین کو بدرجہ اتم نافذ کرنے کی ذمہ داری کو پورا کرنے اورفلاحِ عامہ کی اہلیت سے متعلق ہے، اور جو شخص اس مقصد ِشرعی کو پورا کرنے کی اہلیت سے بہرہ ور ہو، وہ ایک طویل عرصہ اس منصب پر متمکن [1]رہ سکتا ہے، تاوقتیکہ وہ اس میں کسی خلل(کفر بواح وغیرہ) کا مرتکب نہ ہو اور یہ مدت انتہائی کم یا انتہائی زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اسلام میں جمہوریت کی طرح عوام کسی امیر کی معزولی کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہوتے، البتہ جب حکمران نماز کے بنیادی فرض سے غفلت شعاری اپنائے تو ا س وقت لوگوں پر اس کی اطاعت کرنا ضروری نہیں رہتا۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ اسلام کا نظامِ سیاست یعنی ’خلافت‘ حاکمیت ِالٰہی کے نام پر ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت کا نام ہے، جس کو تھیا کریسی کے نام سے جدید دنیا بڑی شدت سے ردّ کرچکی ہے۔ اس سلسلے میں واضح رہنا چاہئے کہ اسلام میں نہ تو علما کا کوئی مخصوص
[1] تفصیل کے لئے دیکھئے : مقالہ ’نفاذِ دین کے لئے چند شرائط‘ مقالاتِ اصلاحی: ج۱/ ص ۲۵۳ تا ۲۵۸