کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 13
موجود ہے۔ جمہوریت چونکہ عوامی حاکمیت کا داعی نظامِ سیاست ہے، اس لئے وہاں انتخاب کا یہ اختیار بظاہر عوام کو ہی حاصل ہے۔ جبکہ اسلام چونکہ حاکمیت ِالٰہیہ کا علم بردار ہے، اس بنا پر وہاں اجتماعی مناصب کی اہلیت کے لئے متعلقہ فرد کا شریعت ِاسلامیہ کے نفاذ اور اسلامی تصورات پر عمل داری کے لئے موزوں ومناسب ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
٭ یہ بھی حاکمیت کے اساسی نظریے کا ہی مظہر ہے کہ اسلام میں حاکمیت چونکہ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اس بنا پر اس کی شریعت کے ماہر اور اس پر عمل پیرا لوگ نہ صرف خود ذمہ داریوں کے لئے موزوں ٹھہرتے ہیں بلکہ آگے بھی مناصب کے لئے نامزدگی کرنا ان کا استحقاق ہوتا ہے۔ گویا اسلام میں مناصب کی تقسیم اوپر سے نیچے کی طرف ہوتی ہے، جس میں عوام کا انتخاب میں کوئی کردار ہونے کی بجائے صاحب ِمنصب کے لئے محضان کا اعتماد یافتہ ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔[1] اس کے برعکس جمہوریت چونکہ حاکمیت ِعوام کی داعی ہے، اس بنا پر جمہوریت میں عہدوں کی تعیناتی اہل فکر ونظر کی بجائے، ہر شخص کا بنیادی حق قرار پاتی ہے۔ یعنی حکومت بظاہر نیچے سے اوپر کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی صورت میں معاشرے میں بھی اللہ کی طرف رجوع کی بجائے عوام الناس کے مفادات یا غیر الٰہی اَغراض پورے ہونے کے امکانات قوی ہوتے ہیں جبکہ اسلام کا مقصد معاشرے کو اللہ کی بندگی کی طرف لانا ہے۔
٭ اسلام کا یہی تصورِ حاکمیت اس کے طرزِ شورائیت میں بھی نمایاں ہے۔ اگر مشاور ت میں ووٹنگ کا طریقہ اپنایا جائے تو اس کا مطلب تمام اراکین کی حاکمیت کا تحفظ ہے جو وہ عوام سے لے کر آئے ہوتے ہیں ۔اور ووٹنگ کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرف یہ حاکمیتیں زیادہ ہوجائیں ، فیصلہ اس کے مطابق ہونا چاہئے جبکہ اسلام میں حاکمیت ِالٰہیہ کا تصور ہے، اس بنا پر ووٹنگ کی بجائے دلیل واستدلال کی بنا ہی پر فیصلہ ہوتا ہے، جو شرعی وتجرباتی ہردو نوعیت کے
[1] جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان کو اشارتاً ان کی امارت کے متعلق یہ ہدایت فرمائی تھی کہ (( یا عثمان! إنہ لعل اﷲ یقمصک قمیصًا فإن أرادوک علی خلعہ فلا تخلعہ)) (سنن ترمذی:۳۷۰۵) ’’عثمان! عنقریب اللہ تعالیٰ تجھے خلعت ِ(امارت) پہنائیں گے، لوگ تجھ سے اس کے اُتارنے کا مطالبہ کریں گے، لیکن تو اسے مت اُتارنا ۔‘‘