کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 12
جمہوریت کا یہ تصورِ اہلیت و نمائندگی آج دنیا کے بیسیوں ملکوں میں اپنی حقیقت آشکارا کرچکا ہے جس میں بظاہر عوام کا نمائندہ بننے والا درحقیقت محض مقابلتاً چند ووٹوں کی اکثریت کا مرہونِ منت ہوتاہے اور اکثر وبیشتر اس کو نامنظور کرنے والے مجموعی طورپر اس کو قبول کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ، گویا ردّ کرنے والوں کی مجموعی اکثریت کے باوجود وہ ان کا نمائندہ ٹھہرتا[1]ہے۔ اس بنا پر بظاہر عوام کی نمائندگی کا اعزاز پانے والے ’عوام کی حکومت‘ کے نام پر اَشرافیہ کا ایسا نیا جتھا بن بیٹھتے ہیں جو عوام سے ایک بار ووٹ لینے کے بعد اپنے منصب کے باقی ایام عوامی خدمت سے قطع نظر اپنے مفادات کی اسیری اور اپنی لالچ وطمع کی تسکین کے لئے ہر لمحہ صرف کرنے میں گزار دیتے ہیں ۔ گویا جمہوریت کا نظریہ ’حکومت ِعوام‘ اس نعرے اور لفظ کے استحصال سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا، جس میں اشرافیہ کا ایک گروہ عوام کی حکومت کے نام پر ان کے سرپر مسلط رہتا ہے۔
اس کی مثالیں جدید دنیا میں ہرطرف بکھری نظر آتی ہیں ، جیسا کہ آج عوام کی حکومت کے نام پر نہ صرف پاکستان میں ابتدا ہی سے چند خاندان’ عوامی حاکمیت کا مصداق‘ ٹھہر چکے ہیں بلکہ دنیا کی بڑی جمہوریتوں مثلاً امریکہ وبھارت میں بھی چند خاندانوں (گاندھی، نہرو اور بش وکلنٹن وغیرہ)کے گرد ہی ’عوامی حاکمیت‘ کا نعرہ طواف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف عوام جمہوریت کے نام سے حکومت کا اِلزام سہنے کے باوجود ابھی تک محروم اور بنیادی سہولتوں کے ہی متلاشی نظر آتے ہیں ۔
ہردونظاموں میں تصورِ اہلیت کا تجزیہ
٭ اسلام اور جمہوریت میں اہلیت کا یہ فرق دراصل ہردونظاموں کی اساسی روح میں
[1] اسلام میں عوام کی رائے بڑی اہمیت رکھتی ہے لیکن اس کا کردار انفعالی ہے، وہ منصب کی نشاندہی کی صلاحیت تو نہیں رکھتے لیکن صاحب ِمنصب ان کا اعتماد یافتہ ضرورہوتا ہے جسے ولاۃ الامر اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے متعین کرتے ہیں ، جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ متعین کرتے ہوئے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے راے عامہ کو پیش نظر رکھا تھا: إني قد نظرت في أمر الناس فلم أرہم یعدلون بعثمان (بخاری:۶۶۶۷) خلفاے اربعہ میں سے کسی کا انتخاب جملہ عوام نے براہِ راست نہیں کیا لیکن وہ سب اُمت کے اعتماد یافتہ تھے۔